دوحہ: (ویب ڈیسک) قطر میں طالبان، افغان حکومت میں امن مذاکرات اگلے مرحلے کے دوران آگے بڑھنے کے لیے تیار ہیں، جس کا اعلان دونوں فریقین نے بات چیت کے قواعد پر اتفاق رائے کے بعد کیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق ستمبر میں شروع ہونے والے یہ مذاکرات ایجنڈے کے حوالے سے تنازعات، اور بحث و مباحثے کے باعث سست روی کا شکار تھے۔
The Pres. of Islamic Republic of Afghanistan welcomes the finalization of the negotiation procedures in Doha. It’s a step forward towards beginning the negotiations on the main issues, including a comprehensive ceasefire as the key demand of the Afghan people for a lasting peace.
— Sediq Sediqqi (@SediqSediqqi) December 2, 2020
افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے رکن نادر نادری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر لکھا کہ بین الافغان مذاکرات کے طریقہ کار کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور ایجنڈے پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
1-2
— Dr.M.Naeem (@IeaOffice) December 2, 2020
نن چهارشنبه د ۲۰۲۰ د ډسمبر پر دوهمه نیټه د بین الافغاني مذاکراتو د دواړو هیئتونو ترمنځ عمومي جلسه ترسره شوه. په دغه جلسه کې ګډې کاري کمیټې ته دنده وسپارل شوه ترڅو د اجنډا موضوعات ترتیب کړي. pic.twitter.com/BL46H2D3cc
دوسری جانب طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے بھی ٹوئٹر پر لکھا کہ مذاکرات کے طریقہ کار کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور اب سے ایجنڈے پر بات چیت کا آغاز ہوجائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں امن کیلئے پاکستانی کوششیں کامیاب، طالبان امریکا معاہدہ طے پا گیا
افغان طالبان اور امریکا کے مابین رواں برس فروری میں غیر ملکی فوجی دستوں کے افغانستان سے انخلا کے معاہدے کے بعد پہلی بار طالبان ور افغان حکومت براہ راست مذاکرات میں مشغول ہیں۔
امریکا کی جانب سے غیر ملکی افواج کے انخلا اور سکیورٹی کی ضمانت کے وعدے کے بعد طالبان نے کابل کے ساتھ مذاکرات کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
افغانستان کی قومی مفاہمتی کونسل کے چیئرمین عبد اللہ عبد اللہ نے ایک ٹویٹ میں اس پیش رفت کو ابتدائی اہم قدم قرار دیا ہے۔
I welcome the initial major step taken in #Doha today agreeing to the procedural framework that paves the way for discussions about the peace agenda. I thank the republic’s negotiation team, all facilitators & the host for their valuable support.
— Dr. Abdullah Abdullah (@DrabdullahCE) December 2, 2020
افغان امور سے متعلق امریکی کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے بھی کامیابی کا خیرمقدم کرتے ہوئے ٹویٹ کی کہ یہ ایک اہم سنگ میل ہے۔
1/4 I welcome the news from #Doha that the two Afghan sides have reached a significant milestone: A three-page agreement codifing rules and procedures for their negotiations on a political roadmap and a comprehensive ceasefire.
— U.S. Special Representative Zalmay Khalilzad (@US4AfghanPeace) December 2, 2020
انہوں نے کہا کہ دونوں فریقین نے سیاسی روڈ میپ اور جامع جنگ بندی سے متعلق اپنے مذاکرات کے قواعد و ضوابط کی تشکیل کے تین صفحوں پر مشتمل معاہدے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ معاہدہ ظاہر کرتا ہے کہ مذاکرات کرنے والے فریقین سخت معاملات پر اتفاق رائے کرسکتے ہیں۔
اگرچہ دونوں فریقین کے مذاکرات کار بات چیت کو آگے بڑھانے کے لیے تیار ہوچکے ہیں، تاہم ذرائع نے بتایا ہے کہ صدر اشرف غنی نے مجوزہ قواعد میں ان الفاظ پر اعتراض کیا تھا جس میں ان کی انتظامیہ اور طالبان کو یکساں بنیاد پر جنگ کا فریق کہا گیا تھا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ان الفاظ کو تبدیل کیا گیا یا نہیں۔
اشرف غنی کے ترجمان صدیق صدیقی نے ٹوئٹر پر کہا کہ یہ اہم امور پر بات چیت شروع کرنے لیے آگے کی طرف ایک قدم ہے۔
اس سے قبل سبکدوش ہونے والے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے 21 نومبر کو دوحہ کے دورے کے دوران جلد مذاکرات پر زور دیا تھا۔ اپنے دورے کے دوران انہوں نے طالبان اور افغان حکومت کے مذاکرات کاروں سے ملاقات کی تھی۔
پومپیو نے بدھ کو دونوں فریقین کے جانب سے کیے گئے اعلان پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ سیاسی روڈ میپ اور جنگ بندی کی طرف تیزی سے پیش رفت ہی وہ چیز ہے جو افغانستان کے عوام کسی بھی چیز سے زیادہ چاہتے ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں افغانستان میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
فروری میں امریکا کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد سے عسکریت پسندوں نے افغان فورسز کے خلاف روزانہ کی بنیاد طور پر دیہی علاقوں میں حملے شروع کردیئے ہیں۔