نیو یارک: (ویب ڈیسک) امریکی صدر جوزف بائیڈن نے فیصلہ کیا ہے کہ سابق پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے افغان طالبان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے برعکس یکم مئی کو نہیں بلکہ 11 ستمبر کو اپنی افواج جنگ زدہ ملک سے واپس بلا لیں گے۔
امریکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق افغان طالبان اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان فروری 2020ء کو ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے مطابق امریکا سمیت تمام غیر ملکی افواج یکم مئی 2021ء تک اپنی افواج وہاں سے نکال لیں گی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی صدر 11 ستمبر کو افغانستان سے مکمل انخلاء کیلئے تیار ہو گئے ہیں، جس کے لیے ابھی تک کوئی شرط نہیں رکھی جا رہی۔ اس بات کا اعلان کل کیا جائے گا، یہ فیصلہ تمام اتحادیوں کو اعتماد میں لیکر کیا جائے گا۔
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر جوبائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان سے یکم مئی کو نہیں بلکہ 11 ستمبر 2021ء کو اپنی افواج جنگ زدہ ملک سے واپس بلا لیں گے۔
امریکی میڈیا کے مطابق اس وقت 2 ہزار 500 امریکی فوج افغانستان میں موجود ہے، یہ تمام افواج صرف افغان فوج کو ٹریننگ کے لیے موجود ہیں۔ جوبائیڈن کی طرف سے 11 ستمبر کی تاریخ کا اعلان اس لیے بھی حیران کن ہے کہ 20 سال قبل نیو یارک میں ایک حملہ ہوا تھا جس کے بعد امریکا اپنی فوج لیکر افغانستان آیا تھا۔
امریکی میڈیا کے مطابق افغانستان سے امریکی فوج کا انخلاء جو بائیڈن کی طرف سے ان کے دور صدارت کا پہلا بڑا فیصلہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں امن کیلئے پاکستانی کوششیں کامیاب، طالبان امریکا معاہدہ طے پا گیا
اس سے قبل افغانستان کے لئے امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کابل کے چار روزہ دورے کے بعد واشنگٹن واپس پہنچ گئے ہیں۔ اپنے دورے میں انہوں نے افغان صدر اشرف غنی، افغان حکومت کی طالبان سے مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ عبداللہ عبداللہ سمیت کئی افغان سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کی ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ یکم مئی کو افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا مشکل ہے۔
امریکی صدر نے امریکی میڈیا کو انٹرویو میں کہا کہ میں ابھی اس فیصلے پر غور کر رہا ہوں کہ انہیں (فوجیوں) کب نکلنا ہے۔
انہوں نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغان طالبان کے ساتھ معاہدے پر ان کی انتظامیہ کی نظر ثانی کے حوالے سے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ سابق صدر کی جانب سے کیا جانے والا یہ معاہدہ بہت اچھا نہیں تھا۔
امریکی صدر نے اس حوالے سے کہا کہ اس لیے ہم اپنے اتحادیوں کے ساتھ ساتھ حکومت سے بھی مشاورت کر رہے ہیں اور یہ فیصلہ ابھی ہونے والا ہے۔ امریکی فوجیوں کے لیے یکم مئی کا انخلا کرنا مشکل ہو گا، یہ ہو سکتا ہے لیکن یہ مشکل کام ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے فوجیوں کے انخلا میں تاخیر کا الزام سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پرعائد کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کی جانب سے مجھے صدارت کی منظم منتقلی میں تاخیر سے میرے وقت کا ضیاع ہوا ہے، جس کی وجہ سے یہ نتائج بھگتنے پڑ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے مکمل انخلاء مشکل: جوبائیڈن، نتائج بھگتنے کیلئے تیار ہو جائو: طالبان
دوسری طرف افغان طالبان کا کہنا ہے کہ 16 اپریل سے ترکی کے شہر استنبول میں شروع ہونے والے امن مذاکرات میں فی الحال شرکت کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ طالبان شوریٰ ابھی ان تفصیلات کا جائزہ لے رہی ہے جو امریکہ نے فراہم کی ہیں۔
ترجمان طالبان محمد نعیم نے کہا ہے کہ ابھی امن مذاکرات میں شرکت کے لئے کمیٹی کے ارکان کا تعین نہیں ہو سکا ہے۔ طالبان ان مذاکرات کی تفصیلات کا جائزہ لے رہے ہیں جو امریکا نے انہیں فراہم کی ہیں۔ ترجمان کے مطابق مذاکرات میں شامل ہونے سے متعلق حتمی فیصلے کا اعلان جلد کر دیا جائے گا۔
سابق طالبان کمانڈر سعید اکبر آغا نے کہا ہے کہ جب تک امریکا معاہدے کے مطابق افغانستان سے اپنی فوج کو نہیں نکالے گا اس وقت تک افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ترکی میں ہونے والے افغان حکومت اور طالبان مذاکرات کا اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں ہو گا جب تک امریکہ دوحہ معاہدے کے تحت اپنی فوجیں افغانستان سے نہیں نکالے گا۔