پاکستان ریڈ لسٹ میں کیوں؟ برطانوی اراکین پارلیمنٹ کی اپنی حکومت پر تنقید

Published On 05 August,2021 05:27 pm

لندن: (ویب ڈیسک) برطانوی اراکین پارلیمنٹ نے پاکستان کو عالمی سفر کے لیے اپنی ریڈ لسٹ میں رکھنے پر اپنی حکومت کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنا ڈالا۔

برطانیہ میں بین الاقوامی سفر کے لیے  ٹریفک لائٹ  نظام نافذ ہے جس میں کم خطرہ والے ممالک کو قرنطینہ سے پاک سفر کے لیے گرین، درمیانے خطرہ والے ممالک کو امبر کا درجہ دیا گیا ہے اور ریڈ لسٹ کے ممالک 10 روز ہوٹل میں قرنطینہ میں گزارنے کی ضرورت ہے۔ اپریل کے شروع میں پاکستان کو ریڈ لسٹ میں رکھا گیا تھا جسکے بعد 19 اپریل کو کیسز کی بڑھتی تعداد اور ڈیلٹا کی مختلف کیسز کے سامنے آنے کے بعد بھارت کو بھی فہرست میں شامل کرلیا گیا تھا۔۔

برطانوی حکومت کی طرف سے جاری کردہ سفری فہرستوں کی اپڈیٹ میں بحرین، قطر اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھارت کو بھی 8 اگست (اتوار) سے امبر لسٹ میں منتقل کردیا جائے گا۔

برطانوی ایم پی ناز شاہ نے کہا کہ وہ اس اقدام پر حیران ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب برطانیہ نے اپنے قرنطینہ ٹریفک لائٹ سسٹم کے انتظامات میں گھناؤنے رویے کا مظاہرہ کیا ہو۔ پاکستان ابھی تک ریڈ لسٹ میں کیوں ہے ، اس کا 7 روز کے انفیکشن کی شرح 14 فیصد ہے جبکہ بھارت 20 فیصد پر امبر لسٹ میں ترقی پاچکا ہے جو اس فہرست میں شامل دیگر ممالک سے بہت زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ آخری بار جب حکومت نے سائنس کے بجائے سیاسی پسندیدگی پر فیصلہ کیا تھا تو ہماری قوم کی کورونا سے جنگ میں مشکلات بڑھ گئی تھی جس کی وجہ سے ڈیلٹا قسم برطانیہ میں سب سے نمایاں کورونا قسم بن گیا۔ اس فیصلے کو  ناقابل قبول  قرار دیتے ہوئے انہوں نے اس مسئلے کو اٹھانے کا عزم ظاہر کیا۔

بولٹن ساؤتھ ایسٹ کی رکن پارلیمنٹ یاسمین قریشی نے بھی نشاندہی کی کہ پاکستان کسی قسم کی تشویش نہ ہونے کے باوجود ریڈ لسٹ میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے حکومت سے سوال کیا تھا اور مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی تھا تاہم اس سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ حکومت پاکستان کو ممکنہ معاشی فوائد کے لیے سزا دینا چاہتی ہے، یہ پاکستان کے ساتھ واضح امتیازی سلوک ہے۔زخم پر نمک چھڑکنے کے لیے ہوٹل کی قرنطینہ لاگت میں 450 پاؤنڈز سے 800 پاؤنڈز کے درمیان اضافہ ہونے والا ہے جو 2200 پاؤنڈزتک پہنچ جائے گی۔ وہ اس معاملے پر برطانیہ کے وزیر ٹرانسپورٹ گرانٹ شپس کو خط لکھ رہی ہیں۔

لیٹن نارتھ کی لیبر ایم پی سارا اوون نے بھی کہا کہ تازہ ترین تبدیلیوں کے پیچھے وجوہات کو سمجھنا مشکل ہے۔ جب آپ اس طرح کے اعداد و شمار دیکھتے ہیں تو ٹوری وزراء کو بہت کچھ سمجھانا پڑتا ہے کہ بھارت کیوں امبر پر جا رہا ہے اور پاکستان اور دیگر ممالک اب بھی ریڈ لسٹ پر ہیں۔

انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ بغیر کسی جانچ پڑتال کے تنہائی میں لیے گئے فیصلے کبھی بھی ان لوگوں کے لیے اچھے نہیں ہوتے جن کی ہم نمائندگی کرنا چاہتے ہیں، ان فیصلوں کے بڑے صحت (اور) ذاتی نتائج سامنے آتے ہیں۔

نئی تبدیلیوں میں برطانیہ انگلینڈ اور اسکاٹ لینڈ سے فرانس واپس آنے والے ویکسینیٹڈ مسافروں کے لیے قرنطینہ کو ختم کر دے گا۔ اس کے علاوہ آسٹریا، جرمنی، سلووینیا، سلوواکیہ، لٹویا، رومانیہ اور ناروے کو انگلینڈ کی گرین لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔

وزیر ٹرانسپورٹ نے کہا کہ قوانین میں نرمی سے جدوجہد کرنے والی ٹریول انڈسٹری پر دباؤ کم ہو جائے گا اور لوگوں کو دوستوں اور خاندان سے ملنے کا موقع ملے گا۔
 

Advertisement