بیجنگ : (ویب ڈیسک ) چین کی میزبانی میں فلسطین کی مزاحمتی تحریکیں الفتح اور حماس سمیت 14 فلسطینی دھڑوں کے درمیان مفاہمت کی کوششیں کامیاب ہوگئیں ، تمام فریقین نے اختلافات ختم کرکے بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے ۔
عرب میڈیا کے مطابق چین کی سرپرستی میں فلسطینی تنظیموں فتح اور حماس کے درمیان مشترکہ بات چیت کے اعلان کے بعد بیجنگ نے رواں سال اپریل میں تصدیق کی تھی کہ فریقین نے مکالمے کے لیے اپنی خواہش کا اظہار کیا ہے اور اس سلسلے میں رواں ہفتے اہم ملاقاتیں ہوئیں۔
چین کے مرکزی ٹیلی وژن کے مطابق فلسطینی گروپوں نے چینی دار الحکومت میں اکٹھا ہو کر مصالحتی بات چیت کی، مزید یہ کہ فتح اور حماس نے مصالحت کے حوالے سے "اعلان بیجنگ" پر دستخط بھی کیے۔
چینی حکومت کی حمایت سے ان مذاکرات میں الفتح کے نائب سربراہ محمود اللول اور حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ سمیت دونوں گروپوں کے وفد نے شرکت کی۔
چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چوننگ کے مطابق فتح اور حماس کئی موضوعات کو زیر بحث لائے اور ان میں "حوصلہ افزا پیش رفت" سامنے آئی۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ایکس" پر جاری بیان میں ترجمان نے بتایا کہ فریقین فلسطینی وحدت کو یقینی بنانے کے لیے بات چیت جاری رکھنے پر متفق ہو گئے۔
الفتح کے سینیئر رہنما عبدالفتاح دولہ نے کہا ’غزہ پر نسل کشی کی جنگ کے ساتھ فلسطینی کاز جن مشکل حالات سے گزر رہی ہے، ان میں مفاہمت کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو حل کرنے اور ختم کرنے کے لیے تیار ہیں‘۔
یاد رہے کہ سات اکتوبر 2023 کو غزہ میں اسرائیلی جنگ کے آغاز کے بعد سے فتح اور حماس کے درمیان کئی الزامات کا تبادلہ ہوا اور ایک دوسرے کو ذمے دار ٹھہرانے کی کوشش کی گئی۔
خیال رہے کہ سال 2006 کے انتخابات میں حماس کی کامیابی اور اس کے بعد ہونے والی جھڑپوں کے بعد حماس نے فتح کو غزہ کی پٹی سے بے دخل کردیا تھا، جس کے بعد سے ہی یہ دونوں گروپ ایک دوسرے کے سخت حریف ہیں۔
سال 2007 میں غزہ کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے اس علاقے پر حماس کی حکومت ہے، دوسری طرف سیکولر تحریک فتح فلسطینی اتھارٹی کو کنٹرول کرتی ہے ، جس کا اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے میں جزوی انتظامی کنٹرول ہے۔
حماس اور فتح کے درمیان مفاہمت کرانے کی متعدد کوششیں اب تک ناکام رہی ہیں لیکن سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے اور غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے مفاہمت کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔
چین نے اپریل میں فتح اور حماس کے رہنماؤں کی میزبانی کی تھی لیکن جون میں طے شدہ اجلاس ملتوی کردیا گیا تھا۔
دوسری جانب غیر ملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق صہیونی فوج کی جانب سے انخلا کے حکم کے چند منٹ بعد جنوبی غزہ میں مشرقی خان یونس پر اسرائیلی فوج کی جانب سے فضائی اور زمینی حملے کیے گئے جس کے نتیجے میں 77 فلسطینی شہید اور 200 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔