اردن کسی ملک کے لیے میدان جنگ نہیں بنے گا : شاہ عبداللہ دوم

Published On 12 August,2024 08:51 am

عمان : (ویب ڈیسک ) اردن کے فرمانروا شاہ عبداللہ دوم نے امریکی کانگریس کے ارکان کے وفد سے ملاقات کے دوران اس بات پر زور دیا ہے کہ اردن کسی ملک کے لیے میدان جنگ نہیں بنے گا اور اپنے عوام کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دے گا۔

عرب میڈیا کے مطابق عمان کے الحسینیہ پیلس میں ہونے والی اس ملاقات میں شاہ عبداللہ دوم نے خطے کی موجودہ پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا۔

اردن کے شاہی دربار کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مملکت کے فرمانروا نے اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ کوششیں کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ خطے کو جنگ میں دھکیلنے کے امن کے لیے کوششیں تیز کرنا ہوں گی، غزہ میں جنگ جاری رہنے تک یہ خطہ اس جنگ کے پھیلاؤ کا شکار رہے گا جس سے اس کے استحکام کو خطرہ ہے۔

اردن کے بادشاہ نے مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف انتہا پسند آباد کاروں کے حملوں اور یروشلم میں اسلامی اور عیسائی مقدسات کی خلاف ورزی کے خطرے سے بھی خبردار کیا۔

انہوں نے دو ریاستی حل پر مبنی منصفانہ اور جامع امن کے حصول کے لیے سیاسی افق تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا، جو فلسطینیوں، اسرائیلیوں اور پورے خطے کی سلامتی کی ضمانت کا واحد راستہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں :کشیدہ صورتحال : امریکا کا مشرق وسطیٰ میں آبدوزاور بحری جہاز کی تعیناتی کا حکم

اس موقع پر اردن اور امریکہ کے درمیان تعاون کے مواقع پر تبادلہ خیال کیا گیا، انہوں نے امریکہ کی طرف سے مملکت کو فراہم کی جانے والی مسلسل حمایت کے لیے امریکی وفد کا شکریہ ادا کیا۔

قبل ازیں اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے کہا کہ ان کا ملک بارہا اس بات پر زور دے چکا ہے کہ وہ کسی کے لیے میدان جنگ نہیں بنے گا، اور اس نے ایرانی اور اسرائیلی فریقوں کو آگاہ کر دیا ہے۔

تازہ کشیدگی ایک ایسے وقت میں پیدا ہوئی جب اسرائیل کے حملے میں تہران میں حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہانیہ اور بیروت میں حزب اللہ کے سینئر کمانڈر فواد شکر کی ہلاکت کےبعد تل ابیب ایران اور حزب اللہ کے جوابی حملے کا انتظار کر رہا ہے۔

اردنی وزیر خارجہ نے کہا کہ موجودہ تنازعہ بنیادی طور پر اسرائیل اور ایران کے درمیان ایک کارروائی اور ردعمل ہے، عالمی برادری کی کوششوں اور سفارتی کوششوں کو غزہ کی پٹی کے خلاف جارحیت کو روکنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے تاکہ خطے کی سلامتی کو محفوظ رکھا جا سکے۔