لاہور: (ڈاکٹر عثمان عمر) زمانہ قدیم میں عیسوی سال کا آغاز مارچ میں ہوتا تھا۔ جنوری فروری آخری مہینے ہوتے تھے۔ رومن کیلینڈر میں تو صرف دس مہینے ہوتے تھے مگر700 قبل مسیح رومی بادشاہ پمپلیس نوما نے جنوری اور فروری کے مہینوں کو سال کے آغاز میں کیا۔جنوری کو مینسیس کہا جاتا تھا اور یہ مہینہ 29 دن کا ہوتا تھا۔ یہ مہینہ دسمبر کے بعد آتا تھا اور رومن سال مارچ میں شروع ہوتا تھا۔
154 قبل مسیح میں ایک بغاوت کے بعد جنور ی کو سال کے شروع کے مہینے میں شامل کر لیا گیا۔اس کے بعد بھی نیا سال مارچ کے مہینے میں ہی منایاجاتا۔ اس بات کا کہیں بھی ریکارڈ نہیں کہ یکم جنوری کو کب نیا سال کے طورپر منایاگیا۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ یکم جنوری سے نیا سال شروع کرنے میں کئی صدیاں لگیں۔ پھر جا کر یکم جنوری نیا سال کے طورپر منایا جانے لگا۔
46 قبل مسیح میں جولیس سیزر نے ایک نیا کیلنڈر سسٹم جولین کیلنڈر‘‘ متعارف کرایا، جس میں اس نے سال میں دن کا اضافہ کیا اور لیپ ڈے متعارف کرایا۔ جولین کیلنڈر میں جنوری کو 20 دنوں سے بڑھا کر31 دن کا کر دیا گیا۔
جنوری ایک مہینے کا نام ہی نہیں بلکہ برازیل کے دوسرے سب سے بڑے شہر کا نام بھی ہے۔1502ء میں جب پرتگال کی مہم جو ٹیم یکم جنوری کو جنوبی امریکہ کے ساحل پر گینبرا بے پہنچی تو اسی مناسبت سے اس جگہ کا نام ریور ڈی جنوری رکھ دیا گیا جو اب ریوڈی جنیریوکہلاتا ہے۔
جنوری کے مہینے کو شروعات کا مہینہ کہا گیا ہے یعنی افتتاحی مہینہ۔ قدیم روم میں افتتاحی مہینے کی 20 تاریخ کو نیک شگون کے طورپر یاد کیا جاتا ہے۔ اسی لئے امریکی آئین میں جنوری کی20 تاریخ کو نیک شگون کے طور پر افتتاح کا دن کہا گیا ہے اور امریکی صدر کی تقریب حلف برداری 20 جنوری کو ہی کو کی جاتی ہے۔ یعنی 20 جنوری سے حکومت کا افتتاح کا دن مانا گیا ہے کہ قدیم روایات کے مطابق اس دن سے کسی بھی کام کا آغاز کیا جائے تو وہ اچھا شگون ہوتا ہے۔
1933 ء سے قبل انتخابات نومبر کے مہینے میں ہوتے تھے جبکہ حلف برداری کے لیے 4 مارچ کی تاریخ متعین تھی اور اس سے نئے بننے والے صدر کو اپنی کابینہ کا انتخاب کرنے اور حکومت کے لیے تیاری کرنے کا وقت ملتا تھا۔ اس زمانے میں ووٹوں کی گنتی، حکومت کی منتقلی کے دوران ہونے والے معاملات میں آمدورفت اور پیغامات کی ترسیل میں بھی بہت وقت لگتا تھا۔ اس لیے کئی مہینوں پر محیط یہ وقفہ ضروری تھا۔
تاہم 1933ء میں امریکی آئین میں 20ویں ترمیم کے بعد اس وقفے کو مختصر کرکے تقریب حلف برداری مارچ کے بجائے 20 جنوری کو کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جدید ذرائع کی وجہ سے آمدورفت کے لیے درکار وقت میں کمی آئی تھی تو دوسری طرف اس لمبے وقفے کو بھی کم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تھی، جس میں جانے والا صدر نئی حکومت کے انتخاب کے بعد نسبتاً کم اختیارات کے ساتھ عہدے پر براجمان رہتا تھا۔
اس کے باوجود نئے صدر کے لیے عہدہ سنبھالنے کے لیے تیاری کی مہلت ضروری ہے جس کی وجہ سے امریکا میں نومبر میں ہونے والے انتخابات کے بعد حلف برداری جنوری کی 20 تاریخ کو ہوتی ہے۔
امریکی انتخابات اور حلف برداری کی تقریب میں طویل وقفہ کی کچھ وجوہات بھی ہیں کیونکہ امریکا میں انتخابات اور حلف برداری دونوں کی تاریخ کا تعین آئین میں کر دیا گیا ہے۔ اس کے مطابق امریکا میں صدارتی انتخابات نومبر کے پہلے منگل کے روز ہوتے ہیں اور حلف برداری کے ذریعے اختیارات کی منتقلی جنوری کی 20 تاریخ کو ہوتی ہے۔ اس کے پیچھے کئی ایک عوامل کارفرما ہیں۔
انتخابات کے نومبر میں ہونے کی ایک وجہ پہلے زمانے میں زرعی آبادیوں کی اس جمہوری عمل کا حصہ بننے کی حوصلہ افزائی کرنا تھی۔ یہ وہ مہینے ہوتا ہے جب امریکا کے دیہات میں فصلوں کی کٹائی ہوچکی ہوتی تھی اور کسانوں کی مصروفیات نسبتاً کم ہوتی تھیں۔ جس کی وجہ سے وہ بڑی تعداد میں انتخابات میں حصہ لیتے تھے۔
اسی طرح منگل کے دن کی تخصیص کا مقصد یہ تھا کہ اس دن لوگوں کی مذہبی اور کاروباری مصروفیات کم ہوتی تھیں۔ امریکا میں لوگ اتوار کے دن چرچ جاتے ہیں اور بدھ کے دن پہلے زمانے میں مقامی مارکیٹیں کھلتی تھیں اور لوگ خریدوفروخت میں مصروف ہوتے تھے۔
ڈاکٹر عثمان عمر اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، آپ نے یونیورسٹی آف بیجنگ سے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے، تاریخ سے خاصہ لگاؤ رکھتے ہیں، ان کے مضامین مختلف جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔