برلن: (ویب ڈیسک) اردن کی ملکہ رانیہ عبداللہ نے جرمنی کے دورے کے دوران اسرائیلی حکام کی جانب سے غزہ جنگ کے بارے میں استعمال کی جانے والی زبان کو نازی دور کے پروپیگنڈا سے تشبیہ دی ہے۔
ملکہ رانیہ نے ون ینگ ورلڈ سمٹ میں نوجوان مندوبین سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا کہ نفرت انگیز تقریر نسل کشی تک لے جا سکتی ہے، جیسا کہ 1930 اور 1940 کی دہائی میں جرمنی میں نازی پروپیگنڈا کے نتیجے میں یہودیوں کی نسل کشی کے دوران ہوا۔
انہوں نے کہا کہ اسے صرف بات چیت سمجھ کر نظر انداز کرنا خطرناک ہے، ہر نسل کشی کی ابتدا الفاظ ہی سے ہوئی، انسانیت سوز زبان ہمیشہ تاریخ کے بدترین ابواب سے پہلے سامنے آئی ہے۔
ملکہ رانیہ نے مختلف تاریخی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ 1930 کی دہائی میں نازی پارٹی نے یہودیوں کو کیڑے مکوڑے کہا، روانڈا میں ٹیٹسـی اقلیت کو کاکروچز کہا گیا، اور میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کو آوارہ کتوں سے تشبیہ دی گئی۔
انہوں نے اسرائیل کے سابق وزیرِ دفاع یواف گالانٹ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جن کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت میں جنگی جرائم کے الزامات زیرِ سماعت ہیں، کیونکہ انہوں نے 2023 میں غزہ کے عوام کو انسانی جانور قرار دیا تھا اور غزہ پر مکمل محاصرہ نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ملکہ رانیہ نے کہا کہ جب ایک اسرائیلی وزیر نے غزہ کے عوام کو انسانی جانور کہا، وہ ایک پرانے آزمودہ طریقے پر عمل کر رہا تھا، عوام کو قائل کرو کہ تم جانوروں سے نبرد آزما ہو، پھر تشدد نہ صرف جائز بلکہ ضروری محسوس ہونے لگتا ہے۔
ان بیانات کو جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف میں نسل کشی کے مقدمے میں بطور ثبوت پیش کیا گیا ہے، غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک 70 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جب کہ علاقے کا بیشتر حصہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے۔
ملکہ رانیہ نے مزید کہا کہ گزشتہ چند ماہ میں قحط اور نسل کشی کی تصدیق آزاد بین الاقوامی اور اقوامِ متحدہ کے اداروں نے کی ہے، دنیا دیکھتی رہی، مگر روکنے کے لیے کچھ نہ کیا، انہوں نے یورپ میں بڑھتی ہوئی اسلام مخالف اور فلسطین مخالف نفرت انگیز تقاریر کو بھی نازی طرز کے بیانیے سے تشبیہ دی، اور خبردار کیا کہ ایسی زبان انسانیت کے لیے خطرناک ہے۔



