کراچی (دنیا نیوز ) 2003 کے مقابلے بجلی کے بلوں میں اب تک لگ بھگ 350 فیصد اضافہ ہوچکا ہے، ماہانہ 300 یونٹ تک استعمال کرنے والے کے لیے اس عرصے میں فی یونٹ 2 روپے 29 پیسے سے بڑھ 12 روپے کے قریب آگیا۔
بجلی کا بل اس لیے بھاری ہوتا جا رہا ہے کیونکہ گزشہ 15 سالوں سے یونٹ جو مہنگا ہو رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کے نرخوں کے تعین میں بجلی گھروں میں استعمال ہونے والے ایندھن کے علاوہ سب سے اہم کردار سبسڈی کا ہے۔
حکومت جس ریٹ پر بجلی پاور کمپنیوں سے خریدتی ہے اس سے قدرے کم ریٹ پر عوام کو بیچتی ہے، قیمت خرید اور فروخت کا فرق سبسڈی کی صورت میں سرکار خود برداشت کرتی ہے۔ مختلف دور حکومت میں بجلی گھروں کو سبسڈی کی ادائیگی میں تاخیر کے باعث سرکلر ڈیٹ نے جنم لیا جس کا حجم آج 1100 ارب روپے سے بھی تجاوز کرچکا ہے۔
گزشتہ ایک دہائی پر نظر ڈالی جائے تو بجٹ خسارے کو لگام دینے کی خاطر اور زیر گردش قرضوں میں کمی کے لیے حکومت کی جانب سے دی جانے والی سبسڈی میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے اور اس طرح بجلی کی قیمتوں کا مکمل بوجھ آہستہ آہستہ عوام پر منتقل کیا جا رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ 2003 میں ماہانہ 300 یونٹ تک استعمال کرنے والا جو صارف 2 روپے 29 پیسے ادا کرتا تھا اب وہ 12 روپے 9 پیسے فی یونٹ کے حساب سے بل دے رہا ہے۔
اسی طرح 301 سے 700 یونٹ تک استعمال کرنے والا اب 2003 کے مقابلے 12 روپے 45 پیسے اضافی دے کر فی یونٹ بجلی کے 16 روپے ادا کر رہا ہے۔
701 سے ہزار یونٹ کے درجے میں شامل ہونے والا صارف 15 سال پہلے 3 روپے 55 پیسے فی یونٹ کے حساب سے بل ادا کر رہا تھا لیکن اب یہ صارف 18 روپے فی یونٹ بجلی خرید رہا ہے۔
2018 میں جو کسٹمر ہزار یونٹ سے زائد بجلی ایک ماہ میں خرچ کررہا ہے وہ فی یونٹ 18 روپے میں خرید رہا ہے جبکہ 2003 میں یہی صارف بجلی کی اتنی ماہانہ کھپت پر صرف 4 روپے 42 پیسے ادا کر رہا تھا۔