سوئٹزر لینڈ: ہسپتالوں میں بیڈز کے قلت کی خبریں جعلی قرار

Last Updated On 16 March,2020 10:45 pm

لاہور: (ویب ڈیسک) کرونا وائرس کی تباہی کی لپٹ میں ہر کوئی ہے۔ جن لوگوں کو یہ نہیں لگی وہ اس کے خوف میں رہ رہے ہیں اور خوف بالکل حقیقی ہے جس سے کوئی فرار نہیں۔ وبا دنیا کے مختلف ممالک میں تیزی سے ایک انسان سے دوسرے انسان تک پھیل رہی ہے اور دنیا بھر کے 160 سے زائد ممالک تک متاثرہ افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسی دوران کرونا وائرس سے متعلق جعلی خبریں بھی خوف بڑھا رہی ہیں۔ اسی طرح کی ایک خبر سوئٹزر لینڈ سے آئی ہے۔

تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں کرونا وائرس سے متعلق جب بھی کوئی ہدایات ملکی سمیت عالمی اداروں کی طرف سے سامنے آتی ہیں، اسی دوران تیزی کے ساتھ جعلی خبریں بھی پھیلنا شروع ہو جاتی ہیں، سوئٹزر لینڈ بھی انہی ممالک میں شامل ہے جہاں آج کل یہ مسئلہ سر اٹھا رہا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ کرونا وائرس پھیلنے کے بعد ملک بھر کے ہسپتالوں میں جگہ کم پڑ گئی ہے، بیڈز کی قلت ہے اور مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جس کے باعث کچھ لوگوں کو زمینوں پر لٹا کر علاج کیا جا رہا ہے۔ لوگوں کو وٹس ایپ پر پیغامات موصول ہو رہے ہیں جس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے۔

سوئس حکام کا کہنا ہے کہ یہ خبریں جھوٹی اور بے بنیاد ہیں کیونکہ ابھی تک کوئی اتنے زیادہ مریض سامنے آئے اور نہ ہی ملک بھر کے ہسپتالوں میں بیڈز کی قلت ہے۔ حکام حالات کا غور سے جائزہ لے رہے ہیں۔ کیونکہ ہمارے لیے بحران نہیں بلکہ اپنے شہریوں پر توجہ ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل سوئس صدر سیمونیتا (Simonetta Sommaruga ) کا کہنا تھا کہ ایک بہت بڑا بحران ہمارے سر پر منڈلا رہا ہے۔ ہم حالات پر الرٹ ہیں، ہم اپنے شہریوں کو کسی صورت بھی نہیں تنہا چھوڑیں گے۔

یاد رہے کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر ایسی چیزیں وائرل ہونا شروع ہو چکی ہیں جن میں اس سے بچنے کیلئے ٹوٹکوں اور مشوروں کی بھرمار ہو چکی ہے لیکن عقل مندوں کیلئے ان سے بچنا ہی مناسب ہے۔

چین سے شروع ہونے والا کرونا وائرس 162 سے زائد ممالک میں پھیل چکا ہے۔ دنیا بھر کے سائنسدان اور طبی ماہرین اس کو ختم کرنے کیلئے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی تک ایسی کوئی دوائی ایجاد نہیں ہوئی جو اس مہلک مرض کا تدارک کر سکے لیکن اس سے بچاؤ کیلئے انٹرنیٹ پر مفت مشوروں کی بھرمار ہے۔

سوشل میڈیا صارفین کو ان دنوں کہیں نہ کہیں سے ایسی پوسٹس ضرور مل جاتی ہیں جن میں کرونا وائرس سے بچنے کیلئے لہسن کے استعمال کا مشورہ دیا گیا ہے۔ ایسی پوسٹس وائرل ہونے کے بعد عالمی ادارہ صحت کو بیان جاری کرنا پڑا کہ یہ سچ ہے کہ لہسن کھانے کے بہت سے فوائد ہیں تاہم اس بات کا حقیقت سے دور تک کوئی تعلق نہیں کہ اس سے کرونا وائرس سے حفاظت ممکن ہے۔

معروف یوٹیوبر جورڈں سیتھر جن کے ہزاروں فالورز ہیں نے دعویٰ کیا ہے کہ ‘’معجزاتی معدنیات’’ سے کرونا وائرس جیسے موذی مرض کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ ان کا یہ معجزاتی فارمولہ کلورین ڈائی آکسائیڈ پر مشتمل ہے۔ جورڈن سیتھنر اور ان جیسے دیگر افراد کی جانب سے سوشل میڈیا پر اس بات کو پھیلایا گیا کہ اس سے ناصرف کرونا وائرس کا خاتمہ ممکن ہے بلکہ کینسر سے بھی بچا جا سکتا ہے۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی جراثیم کش ادویات جن میں ہینڈ سینیٹائزر سرفہرست ہیں کی کمی ہو چکی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اس کو گھر پر بنانے کے فارمولے بھی وائرل ہو چکے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ان دنوں کرونا وائرس کے تدارک کیلئے ایک اور پوسٹ بہت پڑھی جا رہی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ جاپان سے تعلق رکھنے والے ایک مایہ ناز ڈاکٹر نے مشورہ دیا ہے کہ اگر ہر پندرہ منٹ کے بعد پانی پیا جائے تو کرونا وائرس پھپھڑوں کی بجائے معدے میں چلا جائے گا اور پاخانے یا پیشاب کے ذریعے جسم سے نکل جائے گا۔ اس من گھڑت بات کو بغیر تصدیق کے ہزاروں مرتبہ شیئر کیا جا چکا ہے۔

ایک اور دلچسپ مشورہ جو ان دنوں عوام کو دیا جا رہا ہے ان میں سے سرفہرست یہ ہے کہ گرمی کی شدت کرونا وائرس کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے حالانکہ طبی ماہرین کے نزدیک ایسا کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ اس وائرس بارے کچھ پتا نہیں کہ وہ زیادہ ٹمپریچر میں زندہ رہ سکتا ہے یا نہیں؟
 

Advertisement