گیند عمران سے بزنجو ، زرداری پھر بلاول اور۔۔۔۔ گول

Last Updated On 13 March,2018 09:32 am

لاہور: (کامران خان) اپوزیشن سیاست نے کیا رنگ جمایا ہے یہ اپوزیشن کا دن تھا اور پاکستان کے آئندہ سیاسی منظر نامے کی ایک مکمل تصویر بھی سامنے آ رہی ہے کہ مستقبل میں کونسی سیاسی جماعتیں کس کے قریب آسکتی ہیں اس میں ایک انہونی بھی ہو رہی ہے اور وہ آصف زرداری اور عمران خان کی قربت ہے ، دونوں ایک دوسرے کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں سب جانتے ہیں لیکن پچھلے چند دنوں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ پاکستان کی سیاست کے لئے نیا نہیں ہے ، فی الحال ان کا رابطہ بالواسطہ ہے لیکن وہ دن دور نہیں جب وہ ایک دوسرے کے قریب بھی آسکتے ہیں۔ یہ کرشمہ پچھلے چند دن سے دیکھ رہے ہیں جس کے نتیجے میں صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ بن گئے، پیپلز پارٹی کے سلیم مانڈوی والا ڈپٹی چیئرمین منتخب ہوگئے جو چند روز پہلے نا ممکن نظر آتا تھا ، اس کی ابتدا عمران خان نے کی وہ وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کے پاس گئے اور تحریک انصاف کے تمام ووٹ ان کے حوالے کر دیئے گویا انہوں نے پہلا پاس عبدالقدوس بزنجو کو دیا ۔عبدالقدوس بزنجو نے وہ گیند آصف زرداری کی طرف لڑھکا دی اور صوابدیدی اختیار زرداری کو منتقل کر دیا ۔ آصف زرداری نے اپنے بیٹے بلاول بھٹو کو پاس دیا اور بلاول بھٹو نے گول کر دیا ۔ یہ بڑا دلچسپ منظر نامہ تھا کہ گیند کہاں سے ہوتی ہوئی کہاں پہنچی ہے اور بالآخر گول ہوگیا مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی جیتی ہے نہ پی ٹی آئی نہ ہی ایم کیو ایم جیتی بلکہ اس میچ کے ریفری جیت گئے ہیں ۔ مسلم لیگ ن اور نواز شریف کو اپ سیٹ گول ہوا ہے۔

یہ الیکشن 2018 کے الیکشن کی جانب ایک موڑ تھا آج یہ بات بھی ثابت ہو گئی ہے کہ مسلم لیگ ن کا دائرہ اثر سکڑ رہا ہے ۔ فضل الرحمن کی جماعت جے یو آئی اور ایم کیو ایم پیچھے ہٹ گئیں اور نواز شریف کے ساتھ بلوچستان کی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی رہ گئی ہیں ۔ دوسری جانب اپوزیشن کا دائرہ بڑھتا جا رہا ہے جو اس سے پہلے تقریباً انہونی بات تھی۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ایک دوسرے کے قریب آئی ہیں ، 2018 کے الیکشن سے پہلے یہ بہت بڑی خبر ہے کہ تحریک انصاف نے پیپلز پارٹی کے امیدوار سلیم مانڈوی والا کو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا الیکشن جتوایا ہے ، آئندہ الیکشن میں حزب اختلاف کی دوسری جماعتیں بھی ان کے ساتھ مل سکتی ہیں۔ عام انتخابات میں کوئی سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو یا نہ ہو لیکن ہم ایک مفروضے کی بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ انتخابات کے بعد معلق پارلیمنٹ وجود میں آنے پر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ایک مخلوط حکومت بنا سکتی ہیں ۔ ایک واضح لکیر کھنچ گئی ہے اس خط کے ایک طرف ن لیگ مخالف جماعتیں ہیں دوسری جانب اس کی حامی قوتیں ہیں لیکن ان کی تعداد کم ہو رہی ہے اس حوالے سے میر حاصل بزنجو گریہ کناں بھی نظر آئے ہیں ۔

مسلم لیگ ن کے رہنما ڈاکٹر مصدق ملک نے نتائج کو غیر متوقع قرار دیا۔ پروگرام دنیا کامران خان کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا نتیجہ غیر متوقع تھا 53 ارکان نے ووٹ دینے کا کہا تھا ، وہ سارے وعدے میرے سامنے ہیں مگر جب ڈبہ کھلا تو 46 وو ٹ تھے ۔ 7 ووٹ غائب ہو گئے وہ کون سے دوست ہیں جو ہم سے وعدہ کر چکے تھے لیکن وقت آنے پر وہ مکر گئے ۔ ایم کیو ایم اور فاٹا نے ووٹ نہیں دیئے ، ان کے علاوہ بھی شب خون مارا گیا، جے یو آئی نے ہمیں ووٹ دیا یا نہیں میرے پاس اس بارے میں معلومات نہیں ہیں ، اس بات کا امکان ہے کہ ن لیگ کے کسی سینیٹر نے ووٹ نہ دیا ہو لیکن اس بارے میں ہمارے پاس کوئی معلومات نہیں ۔ تحریک انصاف کے رہنما شفقت محمود نے کہا فیصلہ کیا تھا کہ پیپلزپارٹی کے امیدوار کو ووٹ نہیں دینا ، ہمارا مقصد فاٹا سے چیئرمین لانا تھا ، آصف زرداری مجبور ہو کر اپنا چیئرمین نہیں لاسکے ، آصف زرداری کے ساتھ نہیں چلنا چاہتے ، یہ تحریک انصاف کی بڑی کامیابی ہے ، پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل چودھری منظور کا کہنا تھا پارٹی میں سب کی خواہش تھی اپنا چیئرمین سینیٹ ہو، آصف زرداری نواز شریف سے کوئی سپورٹ نہیں لینا چاہتے تھے۔

اس صورتحال کے حوالے سے سینئر تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی نے کہا ہمارے ملک میں جو کچھ اب ہورہا ہے وہ پہلے بھی ہوتا رہا ہے لیکن آج یہ کام کھلم کھلا ہورہا ہے ۔ سیاسی قوتوں نے بعض نادیدہ عناصر کے ساتھ اپنی تقدیر وابستہ کر لی ہے ۔ سینیٹ الیکشن کی بنیاد بلوچستان میں اسوقت رکھ دی گئی تھی جب ن لیگ کا تختہ الٹا گیا ۔ زرداری اور عمران خان کے قریب آنے سے لگتا ہے ، ن لیگ کے مخالف عناصر کو یکجا کرنے کا کام شروع ہو چکا ہے ، ن لیگ کے حامی سمٹ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا میثاق جمہوریت کے بعد لگا کہ اب توبہ ہو گئی ہے مگر ایسا نہیں ہوا ، عمران خان ایک نئے فیکٹر کی حیثیت میں داخل ہوئے ہیں ۔ زرداری وہی پتے کھیل رہے ہیں جن کی وہ پہلے مذمت کرتے تھے ۔ انہوں نے کہا نواز شریف کی سیاسی فوج ان کے ساتھ نہیں رہے گی ، نواز شریف بڑی سیاسی قوتوں اور نادیدہ قوتوں کے ساتھ کٹ چکے ہیں ،ن لیگ کے بیانیہ میں براہ راست عدلیہ پر حملے کئے جا رہے ہیں ، بقائمی ہوش و حواس اہل سیاست اس بیانیے کو قبول نہیں کر سکتے ، عدلیہ ان کو ناکوں چنے چبوا سکتی ہے۔
 

Advertisement