چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینج نے کیس کی سماعت کی۔ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اچانک سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ راؤ انوار نے کہا عدالت کے سامنے سرنڈر کرتا ہوں جس پر چیف جسٹس نے کہا سرنڈر کر کے احسان نہیں کیا۔ سپریم کورٹ نے ایڈیشنل آئی جی سندھ آفتاب پٹھان کی سربراہی میں 5 رکنی تحقیقاتی کمیٹی بنا دی جس میں ڈاکٹر رضوان ، ولی اللہ اور ذوالفقار لاڑک شامل ہیں۔ عدالت نے حکم دیا کہ راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں رکھا جائے، انکے منجمد اکاؤنٹس کھول دیئے جائیں۔
راؤ انوار کی پیشی سے پہلے سپریم کورٹ کی سکیورٹی ہائی الرٹ کی گئی، ہر دروازے پر سخت سکیورٹی رکھی گئی۔ راؤ انوار نے چہرے پر ماسک پہن رکھا تھا، عدالت میں داخلے سے پہلے انہوں نے ماسک اتار دیا۔ راؤ انوار کی گاڑی عدالت کے سامنے آ کر رکی، انکے ساتھ پولیس اہلکار بھی عدالت میں داخل ہوئے، راؤ انوار انتہائی سخت سکیورٹی میں کمرہ عدالت نمبر ایک میں پیش ہوئے۔
یاد رہے نقیب اللہ محسود 13 جنوری کو پولیس مقابلے میں جاں بحق ہوئے جو کپڑے کا کاروبار کرنے کراچی آیا تھا۔ 18 جنوری کو میڈیا پر خبر نشر ہونے کے بعد راؤ ملیر نے نقیب کو دہشتگرد کمانڈر قرار دیا تھا۔ واقعہ کا مقدمہ 19 جنوری کو درج ہوا جبکہ 20 جنوری کو معطل کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے 27 جنوری کو سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔ راؤ انوار طلبی کے باوجود تقریبا 2 ماہ عدالت پیش نہ ہوئے۔