مہندی کی روایت

Last Updated On 02 June,2018 09:18 am

لاہور: (روزنامہ دنیا) مہندی لگانا ایک قدیم روایت بھی ہے اور ثقافت بھی۔ ایک زمانہ تھا کہ جب مہندی صرف شادی بیاہ، عید یا پھر خصوصی تقریبات کے موقعوں پر ہی لگائی جاتی تھی لیکن آج مہندی کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اس نے باقاعدہ ایک فن اور رواج کی شکل اختیار کر لی ہے۔

پہلے زمانے میں خواتین مختلف انواع و اقسام کے پتوں کو سل پر پیس کر ہاتھوں کو رنگا کرتی تھی۔ اس سے ہاتھ میں سوندھی سوندھی خوشبو بھی آتی تھی اور ہاتھ بھی رنگ جاتے تھے۔ موجودہ دور میں جس طرح دیگر امور نے جدید اور نئے طریقے اپنا کر خود کو نئے رنگ و روپ میں ڈھال لیا ہے، اسی طرح سل پر مہندی کے پتے پیس کر لگائی جانے والی حنا اب ’’کون‘‘ اور ٹیوب میں دستیاب ہونے لگی ہے۔ بلکہ اب طرح طرح کے رنگوں میں استعمال کی جاتی ہے۔ آپ جب چاہیں اپنے ہاتھوں اور پیروں کو حنائی رنگ سے سجا اور مہکا سکتی ہیں۔

کم و بیش دو ہفتوں بعد عید کی خوشیاں آنے والی ہیں۔ عید کی تیاریاں اس وقت تک مکمل ہی نہیں ہوتیں جب تک ہتھیلیوں سے مہندی کی سوندھی اور بھینی بھینی مہک نہ اٹھے۔ یہ سنگھار کا ایک لازمی جزو بھی ہے اور ہماری روایت کا ایک خاص حصہ بھی۔ اگر آپ ہاتھوں پر مہندی لگانا چاہتی ہیں تو سب سے پہلے پنسل سے کوئی بھی ڈیزائن بنا لیں۔ اس سے مہندی لگانے کے حوالے سے صفائی آئے گی اورآپ کو بروقت پتہ چل جائے گا کہ ڈیزائن کیسے اور کیا بن رہا ہے۔

مہندی لگاتے وقت آپ ’’کون‘‘ لے کر اگر براہ راست ہاتھ پر مہندی لگانا شروع کریں گی تو اس سے نہ صرف آپ کو مشکل پیش آئے کی بلکہ ڈیزائن بھی خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ لہٰذا ’’کون‘‘ کو آپ ہاتھ میں ایک قلم کی مانند پکڑیں جیسے لکھائی کرتے ہیں۔ اسی طرح ’’کون‘‘ کو چلائیں۔ ’’کون‘‘ کو چلاتے ہوئے اپنے ہاتھ کے انگوٹھے اور دونوں انگلیوں پر دباؤ رکھیں تاکہ مہندی نکلنے میں آسانی رہے۔ اگر مہندی لگاتے وقت ہاتھ کانپ رہا ہو تو ہاتھ کی سب سے چھوٹی انگلی کا استعمال کریں اور سانس روک کر کام کریں۔ اس دوران مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر اپنائیں۔

سبز رنگ کی مہندی استعمال کریں۔ مہندی لگانے سے پہلے کسی اچھے سے صابن سے ہاتھ دھو کر اچھی طرح صاف کر لیں۔ مہندی جلد سکھانے کے لیے ہئیر ڈریسر مشین کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ کون چلاتے وقت اپنے سانس پر کنٹرول ہونا چاہیے۔ مہندی کا رنگ پکا کرنے کے لیے سرسوں کا تیل استعمال کر سکتے ہیں۔ کون صاف ہونی چاہیے اور کسی حصے سے کٹی پھٹی نہ ہو۔

تحریر: فرزانہ اختر