پنجاب میں پرویز الہی کا اصل ٹاسک کیا ہے؟

Last Updated On 01 August,2018 09:51 am

لاہور: ( سلمان غنی) پنجاب کے محاذ پر وزارت اعلیٰ کیلئے تحریک انصاف کی برتری کے بعد قائد ایوان کا فیصلہ تو نہ ہوسکا البتہ پنجاب اسمبلی کی سپیکر شپ کیلئے سابق وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کا نام آنے پر مسلم لیگ ن کیلئے خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے اور امکان یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حکومتی محاذ تحریک انصاف سنبھالے گی تو سیاسی محاذ پر ق لیگ کا کردار اہم ہو گا اور حالات و واقعات اور رجحانات یہی ظاہر کر رہے ہیں کہ وفاقی حکومت اپنی ترجیحات کے مطابق اندرونی اور بیرونی محاذ پر سرگرم ہو گی تو سیاسی میدان صرف پنجاب میں لگے گا۔ جہاں حکومت اور اپوزیشن میں نمبرز گیم میں زیادہ فرق نہیں رہے گا۔ البتہ پنجاب اسمبلی کا ایوان گرم ہو گا لہٰذا دیکھنا پڑے گا کہ پنجاب کے محاذ پر کیا ہو گا۔

چودھری پرویز الٰہی کی نامزدگی کے مقاصد کیا ہیں۔ اپوزیشن اور خصوصاً مسلم لیگ ن کی آئندہ حکمت عملی کیا ہو گی اور حکومتوں کی تشکیل کے عمل کے بعد استحکام آ سکے گا ؟ پاکستان میں سیاست کا اصل میدان تو قومی اسمبلی میں لگتا ہے مگر اس بار ماضی کے برعکس پنجاب کی اسمبلی خاصی ہنگامہ خیز ہو گی قومی سیاست کے بڑے نام چودھری نثار علی، سابق وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی، سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق پنجاب اسمبلی کے فلور کی زینت بنیں گے۔ یہ اور ان جیسے کئی بڑے پارلیمانی نام اس بار پنجاب کی سیاست میں اہم ترین کردار ادا کرینگے۔ ملک میں یہ اسمبلی ہی واحد بڑی جگہ ہو گی جہاں حکومت اور اپوزیشن بظاہر ایک دوسرے کو مشکل حالات میں ڈال دیں گے۔ ماضی میں پنجاب کی پارلیمانی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ماضی میں دو بار ملک کا بڑا صوبہ سیاسی طور پر ہنگامہ خیز تبدیلیوں کی زد میں رہا ہے ۔ ایک بار جب پنجاب میں نواز شریف وزیراعلیٰ بنے تھے اور پیپلز پارٹی اس صوبہ میں ایک بڑی اپوزیشن کے طور پر مسلم لیگ کی راہ میں رکاوٹ تھی۔ دوسری بار جب پنجاب میں محاذ آرائی کا میدان لگا تو اس وقت 1993 میں میاں منظور وٹو محض 18 ووٹوں کو جیب میں ڈال کر پیپلزپارٹی کے حمایت یافتہ وزیراعلیٰ بن گئے تھے۔ اس وقت پنجاب اسمبلی میں لگنے والے میدان کے شور و غل سے پورا ملک گونج اٹھا تھا۔ اس کے بعد پنجاب میں ہر دور میں کمزور اپوزیشن کی وجہ سے حکومتیں اپنا کام کھل کر کرتی رہیں۔
پنجاب میں شہباز شریف کی لگاتار دو مرتبہ حکومت کے بعد یہ پہلی اسمبلی ہو گی جس میں چودھری نثار جیسا وفاقی سطح کا سیاستدان بھی بیٹھا ہو گا اور وہ حامد ناصر چٹھہ کی طرح خاموشی اختیار نہیں کرے گا اور پرویز الٰہی بھی ممکنہ طور پر اس اسمبلی کے سپیکر کے طور پر ایوان چلائیں گے۔ دونوں بڑی قومی شخصیات ہیں ابھی یہ فیصلہ بھی نہایت دلچسپ ہو گا کہ چودھری نثار سرکاری بینچوں پر بیٹھتے ہیں یا انہیں پرانی سیاسی رفاقت اپنی جانب کھینچتی ہے۔ یہ امر بھی دلچسپی کا حامل ہے کہ سعد رفیق جیسا احتجاجی سیاستدان حکومت کی پالیسیوں پر خوب گرجے اور برسے گا اگر اس اسمبلی میں پرویز الٰہی سپیکر بن گئے تو یہ دوسرا موقع ہو گا جب وہ ایوان چلائیں گے پرویز الٰہی واحد شخصیت ہیں جو ن لیگ کے اندرون خانہ کافی روابط رکھتے ہیں اگر ایسا ہوا تو پھر پی ٹی آئی کا وزیراعلیٰ انتظامی کنٹرول سنبھالے گا اور پرویز الٰہی صوبے کا سیاسی کنٹرول سنبھالیں گے، ظاہر ہے قومی اسمبلی چھوڑ کر پرویز الٰہی پنجاب میں کسی بڑے کردار کیلئے آ رہے ہیں۔ اسمبلی میں ہونیوالی قانون سازی، پارلیمانی سیاست اور دیگر اہم امور چلانے کیلئے پرویز الٰہی ہی پی ٹی آئی کا بہترین انتخاب ہو سکتے ہیں۔ پرویز الٰہی پانچ سال اگر پنجاب کی پارلیمانی سیاست میں کام کرتے رہے تو یقینی طور پر وہ ن لیگ کو ’’سیاسی چٹکی‘‘ کاٹنے میں کامیاب رہیں گے۔

دوسری طرف تحریک انصاف کی بھی ایک بڑی الجھن ہے ان پر صوبہ کی حالت بدلنے اور تبدیلی کا بے پناہ دباؤ ہے اور اتحادی حکومتوں کے حوالے سے عمران خان کا دنیا ٹی وی کو دیا گیا ایک انٹرویو بھی موجود ہے جس میں وہ اتحادیوں کی موجودگی میں منشور اور نظریہ پر سمجھوتہ کی بات کرتے ہیں۔ کیا پنجاب میں جوڑ توڑ کا کھیل اور چودھری برادران جیسے روایتی سیاستدانوں کے ساتھ مل کر پنجاب تبدیلی کی سر زمین بن سکتا ہے ؟۔ اس وقت یہ سوال سب سے زیادہ خوف کی صورت میں پی ٹی آئی کے حمایتیوں کے سامنے ہے۔ پنجاب میں جوں جوں پارلیمانی سیاست میں خرابی بڑھتی جائیگی توں توں یہ صوبہ عمران خان کے وژن اور تبدیلی سے دور ہوتا جائیگا۔ تحریک انصاف مت بھولے کہ پنجاب ہی وہ صوبہ ہو گا جس میں تبدیلی کا احتساب 2023 کے انتخابات میں ہو گا۔ لہٰذا ایسے تلخ سیاسی ماحول میں وزیراعلیٰ کیلئے شخصیت کا انتخاب نہایت صبر آزما، مشکل اور بڑے فیصلوں کیلئے بصیرت کا متقاضی ہے۔ کیا عمران اس اہم مرحلے کیلئے کسی بڑے فیصلے کیلئے اپنے آپ کو تیار کر چکے ہیں ؟ عمران خان خود تو وزیراعظم بن جائینگے مگر پنجاب میں ان کا انتخاب اس صوبہ میں تبدیلی کی پہلی اینٹ ہو گا۔

حالات خواہ کچھ بھی ہوں مگر تحریک انصاف کو اس منصب کیلئے کسی "نیب زدہ" اور کرپشن الزامات کے بھنور میں پھنسے روایتی سیاستدان کو نہیں لانا چاہئے کیونکہ ملک کو در پیش بحران کے وقت عوامی رائے عامہ بھی مخالف سمت چلی گئی تو پھر تبدیلی اور نئے پاکستان کی منزل پانا دشوار ہو گا۔ جہاں تک مسلم لیگ ن کی حکمت عملی کا سوال ہے تو مسلم لیگ ن کی تاریخ کوئی زیادہ اچھی نہیں لیکن حالات اور واقعات خصوصاً انتخابات سے پہلے کی صورتحال کے باعث سیاسی زخم خوردہ ضرور ہیں مگر ان کی مؤثر اپوزیشن کا کردار آنے والے دنوں میں واضح ہو گا کہ وہ کہاں کھڑے ہوتے ہیں۔ شہباز شریف ایک اچھے منتظم کے طور پر نام تو رکھتے ہیں مگر اب بطور اپوزیشن لیڈر کے ان کا امتحان ابھی باقی ہے ۔ سعد رفیق کا نام بھی بطور اپوزیشن لیڈر آ رہا ہے مگر سعد رفیق یقیناً چاہتے ہونگے کہ اگرقائد ایوان کیلئے حمزہ شہباز امیدوار ہیں تو اپوزیشن کا بھاری پتھر بھی حمزہ شہباز خود اٹھائیں مگر حالات کا دھارا یہ بتا رہا ہے کہ اپوزیشن کا سخت فریضہ سعد رفیق جیسا سیاسی کارکن ادا کر سکتا ہے خصوصاً جب ایوان میں رانا ثنا اﷲ جیسا سخت جان سیاسی کارکن موجود نہیں۔