لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) صدارتی انتخابات میں حکومتی امیدوار ڈاکٹر عارف علوی کے مقابلے میں اپوزیشن کا مشترکہ امیدوار نہ آنے سے ابھی سے انتخابی نتائج واضح ہو رہے ہیں اور کہا جا سکتا ہے کہ صدارتی انتخابات میں مقابلہ پہلی نہیں بلکہ دوسری پوزیشن کیلئے ہوگا اور دوسری پوزیشن کیلئے بھی پیپلز پارٹی کے امیدوار اعتزاز احسن کے مقابلہ میں مسلم لیگ ن اور ایم ایم اے کے مشترکہ امیدوار مولانا فضل الرحمن کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے جبکہ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے اعتزاز احسن کو صدارتی انتخابات میں جس مقصد کیلئے اتارا ہے اس میں کامیاب رہے گی۔
اپوزیشن کے درمیان رابطوں کے نتیجہ خیز نہ ہونے کا بڑا نقصان یہ نظر آ رہا ہے کہ اب مشترکہ امیدوار نہ آنے سے خود اپوزیشن کے مستقبل کے آگے بھی سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا ہے اور لگ یہ رہا ہے کہ صدارتی انتخابات کے بعد آنے والے حالات میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان دوبارہ کسی مشترکہ پلیٹ فارم پر آنا ممکن نہیں ہوگا۔ صدارتی انتخابات میں حکومت کو فائدہ یہ ہوگا کہ اب ایوان صدر کا مکین ان کا نامزدکردہ ہوگا اور صدارتی انتخاب کا نقصان اپوزیشن کو یہ ہوا کہ اپوزیشن تقسیم ہو گئی اور اب پاکستان کی مؤثر ترین اپوزیشن کے الفاظ ادا نہیں کئے جا سکیں گے۔ لہٰذا دیکھنا یہ ہوگا کہ آخر کیوں اپوزیشن کا متفقہ امیدوار سامنے نہ آ سکا۔ ہارنے والے انتخاب میں اپوزیشن رسماً اکٹھی نہ رہ سکی تو آنے والے حالات میں کسی سیاسی فائدہ کے تحت کیسے جمع ہو پائے گی۔ صدارتی حلقہ انتخاب میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں زیادہ ووٹ رکھنے والی مسلم لیگ ن نے اپنے امیدوار کو میدان میں لانے پر کیونکر زور نہیں دیا ؟ اپوزیشن کی مذکورہ تقسیم حکومت کیلئے کس طرح فائدہ مند رہے گی ؟ اور کس کو اسکا نقصان برداشت کرنا پڑے گا ؟ مذکورہ اپوزیشن اتحاد 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات اور انتخابی نتائج جمع کرنے کے سسٹم آر ٹی ایس کے بیٹھ جانے کے باعث پیدا شدہ صورتحال کے باعث وجود میں آیا اور حکومت کے وجود میں آنے سے پہلے اپوزیشن کے قیام سے بڑے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہوئیں اور انہیں انتخابی نتائج کی بنیاد پر ہونے والے حکومت سازی کے عمل میں سندھ میں پیپلز پارٹی کو اور مرکز، پنجاب اور پختونخوا میں براہ راست اور بلوچستان میں بالواسطہ طور پر پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کا موقع ملا اور اس طرح سے پیپلز پارٹی حکومتی سسٹم کا حصہ بن گئی۔
ایک قومی جماعت کے طور پر اپنی سیاست کو زندہ رکھنے اور مستقبل میں اپنے بڑے سیاسی کردار کیلئے پیپلز پارٹی نے دیگر سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے پارٹی کے شریک چیئرمین سابق صدر آصف علی زرداری کے ارد گرد احتساب کا شکنجہ کسا جاتا نظر آ رہا تھا اور پیپلز پارٹی یہ سمجھتی نظر آئی کہ اس حوالے سے اسے کوئی ریلیف عدالتوں سے تو نہیں اسٹیبلشمنٹ سے مل سکتا ہے لہٰذا اس نے اپوزیشن میں رہ کر سسٹم کی بقا کے نام پر ایک ایسے کھیل کا آغاز کیا جس کا مقصد سابق صدر آصف زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کیلئے ریلیف حاصل کرنا تھا ، پہلے پہل اس نے طے شدہ معاہدے کے تحت وزارت عظمیٰ کیلئے اپوزیشن کے متفقہ امیدوار شہباز شریف کو ووٹ نہ دے کر کمیٹی ڈالی اور بعد ازاں صدارتی انتخابات میں کسی ممکنہ اپ سیٹ سے انحراف برتتے ہوئے بغیر کسی مشاورت کے اعتزاز احسن کو نامزد کر دیا جن کے حوالے سے مسلم لیگ ن کے شدید تحفظات تھے اور صدارتی انتخابات کے حوالے سے بلائی جانے والی اے پی سی میں قبل ازوقت اعتزاز احسن کا نام سامنے آنے پر تحفظات کا اظہار ہوا۔ شہباز شریف کو وزارت عظمٰی کا ووٹ نہ دینے پر گلے شکوے ہوئے لیکن یہاں پیپلز پارٹی کے شرکا نے دفاعی انداز اختیار کئے رکھا یہاں تک خبریں بھی ہیں کہ پیپلز پارٹی اپنے اس عمل پر شرمندہ بھی نظر آئی۔ بعد ازاں پیپلز پارٹی کی جانب سے اعتزاز احسن کے نام پر تکرار اور اصرار یہ ظاہر کرتا نظر آیا کہ مقصود صدارتی انتخابات میں اپنے نہیں حکومتی امیدوار کی جیت ہے جس پر مسلم لیگ ن نے ایم ایم اے کی مشاورت سے مولانا فضل الرحمن کو میدان میں اتارا لہٰذا اپوزیشن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ایسی پوزیشن لے چکے ہیں کہ کوئی بھی اپنا امیدوار دستبردار کرنے کیلئے تیار نہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدارتی انتخاب اپوزیشن میں تقسیم کا باعث بنے گا اور لگتا یہی ہے کہ مستقبل میں ان کے درمیان کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا ممکن نہیں ہوگا۔
پیپلز پارٹی کا کردار یہی ظاہر کر رہا ہے کہ ماضی میں مسلم لیگ ن کی فرینڈلی اپوزیشن پیپلز پارٹی مستقبل میں پی ٹی آئی کی فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی۔ لیکن وزارت عظمیٰ اور صدارتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کی جانب سے ادا کئے جانے والے اس کردار کا اسے کچھ فائدہ بھی ملے گا یا نہیں؟ کیونکہ حالات کا رخ اور اسلام آباد کے بعض معاملات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ٹارگٹ صرف شریف خاندان خصوصاً نواز شریف ہی نہیں خود آصف زرداری بھی ہیں، منی لانڈرنگ کا کیس ان کیلئے وبال جان بنا ہوا ہے اور احتساب کا شکنجہ پیپلز پارٹی جیسی قومی سیاسی جماعت کیلئے کوئی واضح لائن اختیار کرنے میں بڑی رکاوٹ ہے اور دیکھنا یہ ہو گا کہ حکومتی امیدوار کی جیت میں بالواسطہ طور پر کردار ادا کرنے والی پیپلز پارٹی کو اس کا کوئی سیاسی فائدہ بھی ملے گا یا نہیں جہاں تک مسلم لیگ ن کی جانب سے صدارتی انتخابات میں پی ٹی آئی کے بعد بڑی جماعت کے طور پر اپنا امیدوار میدان میں نہ لانے کا سوال ہے تو ن لیگ کو یہ تو معلوم تھا کہ صدارتی انتخابات میں اپنے امیدوار کو میدان میں اتارنا ایک بے فائدہ مشق ہو گی البتہ انہوں نے مولانا فضل الرحمن کو آگے بڑھا کر مستقبل کی سیاست میں ایم ایم اے کو ساتھ چلایا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ آنے والے حالات میں جب مشکلات بڑھیں گی تو کسی احتجاجی مہم یا تحریک کیلئے مذہبی جماعتوں کی طاقت کو سڑکوں پر لا کر حکومت کیلئے مشکلات پیدا کی جا سکتی ہیں، ویسے بھی 2018 کے انتخابی نتائج کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو بہت سے دکھ مسلم لیگ ن اور ایم ایم اے کے سانجھے نظر آتے ہیں اور بعض اوقات چاہتے ہوئے بھی حالات مختلف جماعتوں کو ایک دوسرے کا ساتھ دینے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
وزارت عظمیٰ کے انتخاب میں پیپلز پارٹی کی مسلم لیگ ن کے امیدوار کو ووٹ دینے کے وعدے کے بعدانحراف اور صدارتی انتخابات میں بغیر کسی مشاورت کے پیپلز پارٹی کا اپنے امیدوار کو میدان میں اتارنے کا عمل ظاہر کر رہا ہے کہ پیپلز پارٹی فی الوقت کسی اپوزیشن کے موڈ میں نہیں اور اپوزیشن کا کردار مسلم لیگ ن اور ایم ایم اے کو ہی ادا کرنا پڑے گا۔ البتہ اپوزیشن کو یہ کردار ابھی صرف ایوانوں کے اندر ادا کرنا ہوگا کیونکہ حکومت سازی کے عمل کے بعد اس کی جانب سے اقدامات اور عوام کیلئے ریلیف کا عمل اپوزیشن کے کردار کا تعین کرے گا، اگر عمران خان کی حکومت ملک میں واقعتا سیاسی تبدیلی کے ساتھ گورننس کے قیام، مؤثر احتساب کے ساتھ مسائل زدہ عوام کیلئے ریلیف کے بندوبست میں کامیاب رہی تو اپوزیشن کا کردار محض بیانات، اعلانات اور قراردادوں تک رہے گا اور اگر حکومت اپنے تمام تر دعوؤں، وعدوں کے برخلاف روایتی حکومتی ڈگر پر چلتے ہوئے ڈلیور کرنے میں ناکام رہی تو پھر اپوزیشن کو دما دم مست قلندر سے نہیں روکا جا سکے گا۔ خدانخواستہ وزیراعظم عمران خان ان کی حکومت ڈلیور نہ کر سکی تو ان سے ہونے والی مایوسی اس لئے زیادہ ہو گی کہ ان سے امیدیں ، توقعات بھی بہت زیادہ ہیں اور اب تک کے حکومتی عمل سے یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ بھرپور مینڈیٹ کے باوجود عمران خان کی حکومت میں تجربہ کار افراد کی کمی ہے اور کوئی دن ایسا نہیں جا رہا جس میں کوئی ایسا واقعہ رونما نہ ہوتا ہو جو نئی حکومت کے آگے سوالیہ نشان کھڑا نہ کرے۔