لاہور: (آفتاب میکن) آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی سفارش کے برعکس تحریک انصاف کی حکومت نے گیس کی قیمتوں میں 143 فیصد تک اضافہ کرنے کی منظوری دے دی جبکہ گھریلو صارفین کی سلیبز کی موجودہ تعداد 3 سے بڑھا کر 7 کردی۔
گیس کی چوری سب سے زیادہ گھریلو صارفین میں ہورہی ہے، وفاقی حکومت نے گھریلو صارفین کیلئے گیس کی قیمتوں میں اضافہ کر کے مزید گیس چوری کی راہ ہموار کردی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ غیر منافع بخش گھریلو صارفین کیلئے گیس کی قیمتیں بڑھانے کے بجائے منافع بخش سیکٹر جیسے صنعتی اور کمرشل کیلئے گیس کی قیمتیں بڑھاتی تاکہ گیس کمپنیوں کو چوری جیسے گھمبیر مسئلہ پر قابو پانے میں مدد ملتی ۔ گیس کمپنیوں کی طرف سے بلاوجہ اخراجات، سیاسی گیس کنکشنز اور گیس نیٹ ورک کو ووٹ بینک بڑھانے کیلئے استعمال کرنے کو بھی روکنا چاہیے۔ اوگرا کی طرف سے دونوں گیس کمپنیوں کے گارنٹی شدہ سالانہ منافع کے طریقہ کار کو بھی دیکھا جاتاہے کہ وہ اس منافع کی بھی اہل ہیں یا نہیں کیونکہ گیس کمپنیوں کے سالانہ اخراجات کی بنیاد پر ان کو گارنٹی شدہ 17 فیصد منافع ملتا ہے اور ان کے نیٹ ورک اور صارفین میں اضافہ سراسر سیاسی بنیادوں پر کیاجاتا ہے۔
گیس کی قیمتوں میں اضافہ اوگرا آرڈیننس کی بھی خلاف ورزی ہے، مسلم لیگ (ن ) کی حکومت نے عوامی اور سیاسی مفاد کے پیش نظر اسے دوسال تک روکے رکھا، گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کے اصل ذمہ داروں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔ ایک طرف وفاقی حکومت گھریلو صارفین کو مقامی گیس کی فراہمی یقینی بنا رہی ہے جبکہ صنعتی اور کارخانوں کو مہنگی درآمدی آرایل این جی کی پابند کر رہی ہے کہ وہ اس کو استعمال کریں جس سے ایک طرف تو صنعتوں اور کارخانوں کی لاگت میں اضافہ ہوگا اور ان کی بیرون ملک برآمد ات میں واضح کمی ہوگی جس سے بیروزگاری بڑھے گی جبکہ دوسری طرف فرٹیلائزر اور پاور پلانٹس کو درآمدی آر ایل این جی پر چلانے سے بھی مہنگائی عوام کوہی منتقل ہوگی۔
مہنگائی کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ وہ عوام کی قوت خرید میں اضافہ کرے اور نئے روزگار کے مواقع پیدا کرے ورنہ مہنگائی کا ایسا طوفان آئے گا کہ ایک کرو ڑنوکریاں بھی اس کے سامنے بہہ جائیں گی۔ اگرچہ پاور پلانٹس کیلئے گیس کی قیمت صرف 40 فیصد مہنگی کی گئی ہے اور وفاقی وزیر پٹرولیم غلام سرور خان نے واضح کیا کہ پاور پلانٹس بجلی کی قیمتیں نہیں بڑھائیں گے لیکن وفاقی وزیر پٹرولیم کی شاید کم علمی ہے کہ بجلی کی قیمتیں نیپرا بڑھاتی ہے اور یہ صارفین کو منتقل کی جاتی ہیں اس میں پاور پلانٹس کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ گیس کی قیمتیں بڑھانے پر صوبہ سندھ کے اعتراضات کو بھی وفاقی حکومت خاطر میں نہیں لائی ، صوبائی حکومت نے وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کو بار بار درخواست کی کہ گیس کی قیمتیں بڑھانے کا دائرہ کار وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی ) کے بجائے وزیرا عظم کے زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل کرے کیونکہ 18ویں ترمیم کے بعد گیس صوبائی معاملہ ہے۔
اگرچہ وفاقی وزیر پٹرولیم غلام سرور خان نے گیس کی قیمتوں سے دونوں گیس کمپنیوں کو ہونے والے 152 ارب روپے کے نقصانات میں سے صرف 94 ارب روپے صارفین پر منتقل کیے ہیں اور 58 ارب روپے وفاقی حکومت خود برداشت کرے گی لیکن کب تک ؟ پی ٹی آئی حکومت کو گیس سیکٹر میں اصلاحات پر فوراً عملدرآمد کرنا چاہیے تاکہ اس سیکٹر کی نااہلی، سیاسی بھرتیوں اور میرٹ کے برعکس نیٹ ورکس میں توسیع کو روکا جاسکے۔