لاہور: (روزنامہ دنیا) عام توقعات، خدشات اور توہمات کے برعکس پاکستانی حکومت کو ان چار ہیلی کاپٹرز کا خریدار مل گیا ہے جن کے بارے میں انکشاف ہوا تھا کہ وہ اڑنے کے قابل نہیں ہیں، جس کے بعد سوشل میڈیا پر محاذ گرم ہو گیا کہ حکومت کا انہیں نیلام کرنے کا اعلان حکمت سے خالی ہے۔
یاد رہے کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی نعیم الحق نے دو ہفتے قبل اعلان کیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی اعلان کردہ کفایت شعاری کی پالیسی کے تحت وفاقی حکومت کے زیراستعمال چار ہیلی کاپٹرز اور آٹھ بھینسیں نیلام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نیلامی کے لئے دستیاب بھینسوں کی رونمائی تو سرکاری ٹیلی ویژن پر جلد ہی کر دی گئی تھی۔ پی ٹی وی پر چلنے والی فوٹیج میں ان آٹھ بھینسوں اور تین کٹوں کو دیکھا جا سکتا تھا کہ صاف ستھری، صحت مند اور بظاہر مطمئن دکھائی دینے والی یہ بھینسیں راوی نسل سے تعلق رکھتی ہیں جو زمیندار طبقے میں خاصی مقبول سمجھی جاتی ہیں۔
تاہم ان چار ہیلی کاپٹرز کے بارے میں سرکار نے زیادہ تفصیل نہیں بتائی کہ یہ ہیلی کاپٹر کیسے ہیں، کہاں ہیں اور کتنے کے ہیں؟ لیکن سچ کو سامنے آنا ہی تھا۔ سرکاری ذرائع سے معلوم ہوا کہ ان چاروں ہیلی کاپٹرز کی حالت اچھی نہیں ہے۔ ان میں سے دو چالیس سال اور دو تیس سال سے بھی زیادہ پرانے ہیں اور اڑنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔
ماہرین نے اس صورتحال سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اتنے بوڑھے اور تقریباً ناقابل استعمال ہیلی کاپٹرز کو نیلام کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔ جب یہ صورتحال وفاقی وزیراطلاعات کے سامنے رکھی گئی تو انہوں نے اس سے نیم اتفاق کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ یہ ہیلی کاپٹرز شاید نیلام نہ کئے جائیں بلکہ ہنگامی صورتحال میں امداد فراہم کرنے والے ادارے کو ایئر ایمبولینس کے طور پر استعمال کے لئے دے دئیے جائیں۔ تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ اس ادارے کے ماہرین نے ان ہیلی کاپٹرز میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی بلکہ اس کی جگہ بارہ ارب روپے کی گرانٹ کا مطالبہ کر دیا تاکہ ایسے ہیلی کاپٹرز کو ایمولینس کے طور پر استعمال کرنے سے بچایا جا سکے، جن کا استعمال کہیں مزید ایمبولینس کے استعمال کا باعث نہ بن جائے۔
اس لئے حکومت نے ان چاروں ’’بدنام‘‘ ہیلی کاپٹرز کو نیلام کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ،ان ہیلی کاپٹرز کے بدخواہوں کے لئے بری خبر یہ بھی ہے کہ ابھی نیلامی میں چند روز باقی ہیں اور ان ہیلی کاپٹرز کو خریدار مل بھی گیا ہے۔ بعض با خبر سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ویسٹ لینڈ آگسٹا ہیلی کاپٹرز کا کاروبار کرنے والے ایک شخص نے وفاقی حکومت کو پیشکش کی ہے کہ وہ یہ چاروں ہیلی کاپٹرز ’’جہاں ہیں، جیسے ہیں‘‘ کی بنیاد پر خریدنے کے لئے تیار ہیں۔ ان صاحب نے البتہ اس پیشکش کو مشروط کر دیا ہے اور یہی شرط ایک سرکاری افسر کے بقول دودھ میں مینگنیاں بن گئی ہیں اور وہ شرط یہ ہے کہ حکومت ان چاروں ہیلی کاپٹروں کے بدلے ان صاحب سے ایک نیا ہیلی کاپٹر خرید لے اور ان چاروں ہیلی کاپٹرز کی قیمت نئے ہیلی کاپٹر کی قیمت میں سے کاٹ لے۔
یہ پیشکش اتنی بری بھی نہیں ہے لیکن حکومت پاکستان کے قواعد اس سودے کی راہ میں حائل ہیں جو کہتے ہیں کہ حکومت پاکستان کوئی بھی چیز خریدنے کے لئے عالمی مارکیٹ سے بولی لینے کی پابند ہے اور یہ سودا کیش کی بنیاد پر ہی ہو سکتا ہے اور اس میں اشیا کے تبادلے کی گنجائش نہیں ہے۔ یوں حکومت پاکستان مذکورہ فرد کو ہیلی کاپٹرز بیچ تو سکتی ہے لیکن اس کے بدلے نئے ہیلی کاپٹر خریدنے کی ضمانت نہیں دے سکتی اور اس یقین دہانی یا ضمانت کے بغیر خریدار پرانے ہیلی کاپٹر اٹھانے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا اس کے باوجود کہ انہیں بہت سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ ہیلی کاپٹرز ہیں فوم کا گدا نہیں کہ پرانا دیں اور نیا لے جائیں۔