”چہرہ بتا رہا تھا کہ مارا ہے بھوک نے“

Last Updated On 30 September,2018 06:21 pm

لاہور: (دنیا میگزین) پاکستان کے 52 اضلاع میں 70 برس میں کوئی سماجی تبدیلی نہیں آئی، شہریوں کو تو پتا بھی نہیں کہ ”میٹھا پانی“ کسے کہتے ہیں، آئیے ڈالتے ہیں ”لیس ڈویلپڈ ایریا“میں سماجی سہولتوں کے فقدان پر ایک نظر

 

لیہ شہر 35 سال میں بالکل بھی نہیں بدلا، سب کچھ پہلے جیسا ہے، وہی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، مین سڑک کے اطراف میں برسوں پرانے کچے، نیم پکے اور کہیں کہی ںپکے مکانات، چھوٹی چھوٹی دکانیں اور چہروں پر چھائی وہی پہلے شکن در شکن بے چینی اور بے یقینی کی علامتیں، غربت کی نشانیاں، وہی مشکلات میں گھرے ہوئے لوگ اور وہی خشک بنجر زمین۔ تاحد نظر کھیت کھلیانوں کا کہیں نام و نشان نہیں۔ لیہ کے جفا کش لوگ تقریباً 40 سال قبل بھی پسماندہ تھے اورآج بھی ہیں۔
مظفر گڑھ سے تونسہ بیراج کی جانب آئیں تو چند قدم آگے لیہ کی ریتلی سرزمین شروع ہوتی ہے۔ علاقہ نیم صحرائی ہے۔ گھٹے ہوئے جسم کے مالک افراد کو دیکھتے ہی آپ کو پتھریلی، خشک مٹی اور زمانے کی مشقت کا احساس ہو گا۔

کہتے ہیں پاکستان میں ہر 15 کلومیٹرکی نان سٹاپ ڈرائیو کے بعد زبان کا لب و لہجہ بدل جاتا ہے۔ یہی نہیں صورتیں بھی بدل جاتی ہیں۔ کہیں پیسہ بولتا ہے اور کہیں غربت چنگھاڑتی ہے، انہیں لب کھولنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی، کچھ کہنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی، ماحول ہی سب کچھ بتا دیتا ہے۔

دس پندرہ فٹ کی مسافت سب کچھ کہہ ڈالتی ہے۔ خوشحالی چہرے پر ہی ظاہر ہونے لگتی ہے۔ لیہ میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں بدحالی، ناخواندگی، غربت اور گندے پانی سے پھیلنے والے امراض کے سوا کچھ نہیں۔

ڈاکٹروں کی شدید کمی ہے، پچھلے دنوں جب انتظامیہ نے عطائیوں کو پس دیوار زنداں ڈالنا شروع کیا تو یہاں بھی بہت سے عطائی روپوش ہو گئے، مگر کچھ تو ڈنکے کی چوٹ پر کام میں مگن رہے۔ یہ علاج کے حوالے سے عجیب دور تھا، ایک ایسا دور جب مریضوں کو عطائی بھی میسر نہ تھے۔

لیہ کے ہمسایہ میں مظفر گڑھ کے لوگ کئی مرتبہ اقتدار کے مزے لوٹ چکے ہیں، ان کے اپنے حالات شائد بہت بدل گئے ہوں۔ خاندانوں کے ایک کے بعد ایک فرد نے حکمرانی کی مگر مظفر گڑھ ،لیہ ، راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کے عوام آج بھی بنیادی سہولتوں کو ترس رہے ہیں۔

لیہ سے آگے ڈی جی خان تک کا علاقہ نیم صحرائی ہے یا قبائلی۔تعلیمی شعبے میں پسماندگی میں راجن پور سب سے آگے ہے۔ خواتین کی اصل شرح خواندگی تمام سرکاری دعوﺅں کے باوجود 30 فیصد سے زیادہ نہیں۔

مردوں کی شرح خواندگی بھی قابل ذکر نہیں۔ راجن پور کبھی ڈی جی خان کا حصہ ہوا کرتا تھا جہاں کے سردار زمانہ انگریز سے اقتدار کی غلام گردوں میں گردش کرتے رہے ہیں، ووٹ کو عزت توخوب ملی مگر ووٹر کو عزت نہ مل سکی۔ کتنی قد آور شخصیات آئیں او گزر گئیں، خاک نشیں ہو گئیں مگر خاک کی حالت نہیں بدلی۔ 70 برس میں سوائے حکمرانوں کے،کچھ نہیں بدلا۔

آج ہم ایسے ہی اضلاع کا ذکر کریں گے جہاں 70 برس میں سماجی حالت میں قابل ذکر تبدیلی نہیں آئی۔ ان 52 اضلاع کی محرومیوں کو قبائلی نظام میں بھی تلاش کیا جا سکتا ہے اور دہشت کی فضا میں بھی پسماندگی کی بو پھیلی ہوئی ہے۔ دنیا چاند پر پہنچ چکی اور ہم زمین پر چاند کو صحیح طریقے سے ڈھونڈ نہیں سکے۔ ان علاقوں کا بھی یہی حال ہے۔تونسہ بیراج قرب میں ہے لیکن لیہ شہر پیاسا ہے۔صاف پانی دستیاب نہیں۔دریا ساتھ بہتا ہے،میٹھے پانی کے چشمے ہیں،مگر ہم پینے کا پانی مہیا کر سکے ہیں نہ انہیں بارشی موسم میں بپھرے ندی نالوں سے بچا سکے ہیں۔ہم نے کیا کیا ہے اپنے شہریوں کے لئے؟

پسماندگی کا شکار افراد کہاں کہاں رہتے ہیں؟

ان کم ترقی یافتہ اضلاع کے کئی سیاست دانوں نے اعلیٰ عہدے سنبھالے، صوبائی یا وفاقی وزارت بھی سنبھالی۔ وزیراعلیٰ بھی بنے اور گورنر بھی مگر اپنے ضلع کے عوام کی توقعات پر پوار نہیں اتر سکے۔

صوبہ خیبر پختونخوا

شانگلہ ڈسٹرکٹ کو پسماندہ ترین اضلاع میں شمار کیا جا سکتا ہے، یہاں 89695 گھرانوں کی آبادی 7.58 لاکھ ہے۔ پورے ضلع میں ایک بھی شہری مکان نہیں ہے۔

لکی مروت میں پونے نو لاکھ میں سے 7 لاکھ 87 ہزار افراد دیہات میں مقیم ہیں۔ شہری آبادی 89 ہزار ہے۔ 89 ہزار میں سے 11 ہزار کو صرف شہری کہا جا سکتا ہے۔

کرک کی بھی یہی کیفیت ہے۔ 7 لاکھ میں سے ساڑھے چھ لاکھ دیہات اور 51 ہزار شہری میں مقیم ہیں۔ 68 ہزار میں سے 5680 مکانات کو شہری کہا جا سکتا ہے ورنہ ان کی حالت بھی شہر سے کہیں کم تر ہے۔

ہنگو میں 5 لاکھ 20 ہزار میں سے 4 لاکھ 16 ہزار افراد دیہات میں مقیم ہیں۔ 48 ہزار گھرانوں میں سے 16 ہزار گھر شہری علاقو میں قائم ہیں۔

چترال پاکستان کا پرکشش مقام ہے، یہاں تقریباً ساڑھے چار لاکھ لوگ دیہات میں مقیم ہیں۔ 66169 مکانات میں سے صرف 7 ہزار مکانات کو کسی حد تک شہری کہا جا سکتا ہے، 69 ہزار 525 جبکہ گھرانوں کی اکثرت دیہات میں مقیم ہے۔

بٹگرام کا بھی یہی حال ہے۔ بونیر میں 9 لاکھ لوگ 94 ہزار مکانات میں سے زیادہ تر دیہات میں واقع ہیں۔

صوبہ پنجاب

پنجاب میں لودھراں کی سب سے بری حالت تحصیل دنیا پور کی ہے جس میں 71 ہزار میں سے صرف 6 ہزار مکانات شہر میں ہیں۔ ضلع لیہ میں 18 لاکھ افراد میں سے 15 لاکھ افراد دیہات میں مقیم ہیں۔

ڈیرہ غازی خان کو ہماری سیاست میں انتہائی اہم مقام حاصل ہے، یہاں کے 3.3 لاکھ میں سے صرف 73 ہزار گھرانے شہر میں آباد ہیں۔ راجن پور میں شہری آبادی محض ساڑھے تین لاکھ ہے، 2 لاکھ 62 ہزار میں سے 5 ہزار گھرانے شہری ہیں۔

صوبہ سندھ

سندھ میں عمر کوٹ کے 2.12 لاکھ گھرانوں کی آبادی تقریباً 11 لاکھ ہے، ان میں سے سوا آٹھ لاکھ دیہات اور ڈھائی لاکھ شہروں میں مقیم ہے۔ ان کی پسماندگی کا تدارک اب تک کسی نے نہیں کیا۔

قمبر شہداد کوٹ کی آبادی تقریباً ساڑھے تیرہ لاکھ ہے، 9.5 لاکھ افراد دیہات اور 4.5 لاکھ شہروں میں رہتے ہیں۔

بدین کے 18 لاکھ افراد میں سے 14 لاکھ دیہات اور تقریباً 4 لاکھ شہروں میں مقیم ہیں۔ بدین کے ساڑھے تین لاکھ گھرانوں میں سے محض 77 ہزار گھرانے شہر میں ہیں۔

قبائلی علاقہ جات

جنوبی وزیرستان ایجنسی کی آبادی پونے سات لاکھ ہے، یہاں ایک بھی شہری مکان نہیں، سب کے سب دیہی ہیں۔ اورکزئی میں ڈھائی لاکھ آبادی کو کوئی سہولت میسر نہیں، سوا 21 ہزار گھرانے دیہات میں مقیم ہیں۔

بعض دوسرے اضلاع کی طرح اورکزئی میں بھی ایک بھی شہری مکان نہیں، البتہ شمالی وزیرستان ایجنسی کے ساڑھے پانچ لاکھ افراد میں سے سوا پانچ ہزار شہرمیں رہتے ہیں۔ 59 ہزار گھروں میں سے 356 گھرانے شہروں میں قائم ہیں۔

مہمند ایجنسی کی صورتحال بھی اس سے مختلف نہیں۔ 4.67 لاکھ افراد دیہات میں مقیم ہیں، یہاں شہرکا کوئی وجود نہیں۔ کرم ایجنسی کے 6.20 لاکھ میں سے پونے چھ لاکھ لوگ دیہات میں مقیم ہیں، 63 ہزار میں سے صرف 4 ہزار مکانات شہرمیں قائم ہیں۔

خیبر ایجنسی کے 10 لاکھ میں سے 9 لاکھ لوگ دیہات میں مقیم ہیں، صرف 10 فیصد مکانات شہری کہلاتے ہیں۔ ایف آر پشاور کی آبادی 65 ہزار ہے۔ کسی کو شہری سہولتیں میسر نہیں ہے۔

یہی صورتحال ایف آر ڈی جی خان کی ہے جہاں 69 ہزارافراد دیہات میں مقیم ہیں یہاں شہری سہولت کا کوئی تصور نہیں۔ ایف آر بنوں کے 43 ہزار لوگ دیہات میں مقیم ہیں۔ یہاں 42 سو گھرانوں کو ایک بھی شہری سہولت میسر نہیں۔

ایف آر ٹانک کے 36 ہزار لوگ دیہات میں رہتے ہیں۔ یہی صورتحال ایف آر کوہاٹ کی ہے جس کے 1.19 لاکھ افراد دیہات میں مقیم ہیں یہاں سوا 14 ہزار گھرانوں کو ایک بھی شہری سہولت میسر نہیں ہے۔

باجوڑ ایجنسی کی آبادی 18 لاکھ اور گھرانو ں کی آبادی 1.21 لاکھ ہے یہاں بھی لوگوں کوکوئی شہری سہولت میسر نہیں ہے۔ اپر دیر کے ساڑھے نو لاکھ لوگوں میں سے 44 ہزار شہروں میں مقیم ہیں۔ دیہی گھرانوں کی تعداد 1.14لاکھ ہے جبکہ شہری علاقے میں صرف 6 ہزار گھرانے آباد ہیں۔

(اس سٹوری کی مکمل تحریر پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)

 




Recommended Articles