لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کے حوالہ سے پنجاب پولیس کے سینئر آفیسر خالق داد لک کی انکوائری رپورٹ عدالت میں پیش ہونے پر واضح ہو گیا ہے کہ ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ اثر و رسوخ کی بنا پر کیا گیا۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پنجاب کے سابق آئی جی کلیم امام نے سب اچھا کی رپورٹ دے کر محض ایک ربڑ سٹمپ کا کام کیا اور ان کا کردار اس حوالہ سے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کا تھا خود اپنی رپورٹ سے قبل ہی ڈی پی او کا تبادلہ ظاہر کرتا ہے سب کچھ عجلت میں ہوا جبکہ دوسری جانب بینچ میں موجود جسٹس اعجاز الحسن کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کو آئین کا آرٹیکل 62 ایف ون یاد کر لینا چاہئے، آئین کا یہ آرٹیکل کس طرح رکن پارلیمنٹ کی اہلیت سے متعلق ہے، ڈی پی او پاکپتن کے حوالہ سے سماعت آئندہ ہفتہ کو ہوگی لیکن اگر پولیس کے سینئر آفیسر خالق داد لک کی رپورٹ کا جائزہ لیا جائے اور اسے ٹیسٹ کیس بناتے ہوئے اس پر پیش رفت کی جائے تو پولیس کو بھی قواعد و ضوابط کا پابند بنایا جا سکتا ہے حکومت کا بھی اس حوالہ سے کردار واضح ہو سکتا ہے اور پھر پولیس کے سسٹم میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔
بنیادی سوال یہی ہے کہ آخر کیونکر پولیس خود کو ریاست کی پابند سمجھنے کی بجائے حکومتی دباؤ میں آتی ہے ؟ اس وقت ملک میں عمران خان کی حکومت ہے جو اداروں کی مضبوطی کے ساتھ انہیں ہر قسم کے دباؤ سے نکالنے اور خود کو اپنے اصل مقاصد تک محدود کرنے کے دعویدار ہیں لیکن لگتا یوں ہے کہ وہ خود اپنے ہی دعوؤں کے اسیر بن گئے ہیں اور ان کے دعوؤں اور عملی اقدامات کے حوالہ سے اٹھنے والے سوالات حکومت کو ٹیک آف نہیں کرنے دے رہے۔ یاد رہے کہ دو ہفتے قبل ہی لاہور میں ایک اہم اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پرانے چیف سیکرٹری بطور چیف سیکرٹری کام جاری رکھیں گے لیکن آخر کیا ہوا دو تین ہفتوں کے بعد ہی چیف سیکرٹری کو چلتا کر دیا گیا اگر ماضی کی شہباز شریف کی اور موجودہ تحریک انصاف کی حکومتوں کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ شہباز شریف کی حکومت میں ہوتا یہی تھا مگر وہ بڑے دعوے نہیں کرتے تھے جبکہ موجودہ حکومت جو دعوے کر رہی ہے اس میں الجھ گئی ہے۔
ڈی پی او پاکپتن کے تبادلہ کے ایشو نے نئی منتخب حکومت کو دفاعی محاذ پر لاکھڑا کیا ہے اور اس کیس میں عدالتی ریمارکس کے بعد محسوس یہ ہوتا ہے کہ اب نہ صرف پنجاب کے چیف ایگزیکٹو عثمان بزدار 62 ون ایف کی زد میں ہیں بلکہ اپنی پیشہ وارانہ اہلیت ایکسپوز ہو جانے کے بعد کیا کلیم امام آئی جی سندھ کے منصب پر قائم رہ سکیں گے ؟ ایسالگ رہا ہے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کی لٹکتی تلوار وزیراعلیٰ ہی نہیں سب کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔