منتخب ایوانوں میں گالم گلوچ کا رجحان کیوں ؟

Last Updated On 09 November,2018 09:24 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) قائد ایوان عمران خان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کو ساتھ لیکر پارلیمنٹ چلانا چاہتے ہیں لیکن اپوزیشن ایوان کا ماحول خراب کرنا چاہتی ہے۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا کہنا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں اگر یہ گاڑی نہ چلی تو بہت نقصان ہوگا لیکن اگر عملاً منتخب ایوانوں کی صورتحال اور کارکردگی پر نظر دڑائی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن منتخب ایوانوں کے وجود میں آنے کے بعد سے اب تک قوم و ملک کو در پیش سلگتے اور اہم مسائل پر سنجیدگی دکھانے اور ان کے حل کی جانب پیش رفت کے بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے نظر آ رہے ہیں جس کے باعث ملک میں نئی مایوسی نے جنم لیا ہے۔

سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ آخر کیوں سیاستدانوں نے تاریخ سے سبق حاصل نہیں کیا ؟ ایوانوں کے اندر درجہ حرارت بڑھانے کا ذمہ دار کون ہے ؟ اور کیا حکومت اور اپوزیشن دونوں جانب کے سرگرم ہاکس کو ان کی قیادتوں کی آشیرباد بھی حاصل ہے ؟ جہاں تک ملکی سطح پر مایوسی کے رجحان کا تعلق ہے تو حقیقت یہ ہے کہ عوام کو اپنی نئی حکومت سے بہت سی توقعات تھیں لیکن اگر اب تک کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ حکومتی پالیسیوں کے نتیجہ میں آنے والے مہنگائی کے طوفان نے عوام الناس کو پریشان کر دیا ہے۔ یہ گزشتہ حکومتوں کی پالیسیوں کے باعث ہوا یا نئی حکومت کے اقدامات سے، قطع نظر اس کے زمینی حقائق یہی ہیں کہ لوگوں کی پریشانی بڑھی اور غالباً یہی وجہ ہے کہ حکومتی ذمہ داران اس سے بچنے کے لیے اپوزیشن پر گرجتے برستے نظر آ رہے ہیں اور انہیں کرپشن کے الزامات کے ذریعے ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔

دوسری جانب اپوزیشن کے ذمہ داران بھی حکومت کو سلیکٹڈ قرار دیتے ہوئے درجہ حرارت بڑھا رہے ہیں اور الزام تراشی کا یہ سلسلہ ایوانوں کے اندر مچھلی منڈی کا منظر پیش کرتا نظر آتا ہے اور ایک دوسرے کے حوالے سے گالم گلوچ کا ایسا سلسلہ شروع ہے جو گلی محلوں اور بازاروں میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔ مایوسی کی بات یہ ہے کہ اراکین اسمبلی کی بڑی اکثریت سنجیدہ اراکین پر مشتمل ہے اور وہ اس صورتحال میں بہتری کے لیے دباؤ بڑھانے کے بجائے خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی نظر آ رہی ہے ، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عوام الناس کی طرح وہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں ان کی قیادتوں کی آشیرباد حاصل ہے اور اس میں بڑی حد تک صداقت بھی نظر آتی ہے۔

جہاں تک قائد ایوان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کو ساتھ لیکر چلنا چاہتے ہیں تو لگتا یوں ہے کہ ان کا یہ بیان روایتی بیان ہے کیونکہ حکومتی ذمہ داران اور وزرا کی جانب سے اپوزیشن کے حوالے سے اختیار کیا جانے والا طرز عمل ظاہر کرتا ہے کہ یہ طے شدہ حکمت عملی کے تحت ہے اور وہ خود بحران پیدا کراتے ہیں جبکہ اپوزیشن بھی پھر کچھ کم کرتی نظر نہیں آتی اور لگتا یوں ہے کہ شاید یہ منتخب ایوان وجود میں ہی اس لئے آتے ہیں اور پھر لوگ بھی یہ استفسار کرتے نظر آتے ہیں کہ کیا ان کے پاس ملک کے حوالے سے کوئی ایجنڈا نہیں۔ آج ملک کے سنجیدہ حلقے ایوانوں کی کارکردگی بارے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اس رجحان کے باعث سیاستدانوں کی اپنی ساکھ اور شہرت متاثر ہو رہی ہے ۔ ان ایوانوں کو چلانے پر روز مرہ بنیادوں پر کروڑوں کے اخراجات آتے ہیں مگر ان کی کارکردگی پر نظر دوڑائی جائے تو ان کا آؤٹ پٹ مایوس کن ہے اور خصوصاً نئی حکومت کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ انہیں پہلی بار حکومت میں آنے کا موقع ملا’ بنیادی ذمہ داری ان کی تھی کہ وہ خود کو ماضی کی دونوں حکمران جماعتوں سے مختلف نظر آتے اور ثابت کرتے کہ وہ مسائل کے حل میں سنجیدہ ہیں لیکن ایسا نظر نہیں آ رہا جبکہ اپوزیشن ملک کے اندر احتسابی عمل کا سلسلہ شروع ہونے پر پریشان نظر آ رہی ہے۔

مہنگائی کا طوفان رکنے کا نام نہیں لے رہا اور پہلے سو دن کے اندر جو ٹیک آف کرنے کی رفتار ہونی چاہئے وہ محسوس نہیں کی جا رہی۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران اور ذمہ داران اپنے مینڈیٹ کے حوالے سے جوابدہی کے بجائے ہر چیز پر مسئلہ کا ذمہ دار اپوزیشن کو ٹھہرا رہے ہیں اور لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ وہ ذمہ دار تھے تو آپ کو موقع دیا گیا ہے لہٰذا آپ کچھ کر کے دکھائیں۔ یوں حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے لیکن حکومت کا طرز عمل بتا رہا ہے کہ دباؤ محسوس نہیں کیا جا رہا اور یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو پھر منتخب حکومت اور ا یوانوں سے مایوسی جنم لے گی جو خود جمہوریت اور جمہوری عمل کے حوالے سے اچھی نہیں ہوگی ۔