پنجاب کا سیاسی محاذ: دال میں کچھ کالا

Last Updated On 12 November,2018 10:02 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) پنجاب میں تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعت ق لیگ کے درمیان پیدا شدہ صورتحال کوئی غیر معمولی نہیں بلکہ فطری ہے، اس حوالے سے اس حکومت کے قیام کے بعد سے ہی کچھ اشارے آنا شروع ہو گئے تھے کہ پنجاب کا پاور سنٹر کون ہے۔

اگر وزیراعلیٰ عثمان بزدار ہی ہیں تو پھر ان کے اختیارات کی غیر اعلانیہ تقسیم کیوں ہے اور یہی وجہ ہے کہ نئی پیدا شدہ صورتحال اس امر کی عکاس ہے کہ پاور سنٹر ایک نہیں ہے، پنجاب میں بظاہر وزیراعلیٰ عثمان بزدار ہیں اور کمزور وزیراعلیٰ ہونے کی وجہ سے وزارت اعلیٰ کے بہت سے امیدوار اپنے داؤ پر بیٹھے اپنی اہمیت و حیثیت منانے کے چکروں میں ہیں۔ لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ کیا واقعی پنجاب میں پاور سنٹر ایک ہے۔ کیا وزیراعلیٰ عثمان بزدار ہی وزیراعلیٰ رہیں گے؟ اور وہ کون ہیں جو وزیراعلیٰ کے اختیارات پر اثر انداز ہو رہے ہیں؟ یہی کیفیت طاری رہی تو کیا پنجاب حکومت سیاسی اور عوامی محاذ پر ڈلیور کرنے میں کامیاب ہو سکے گی؟

حکومت کے پہلے 100 دن میں کوئی اور ڈویلپمنٹ ہوئی ہو نہ ہوئی ہو مگر یہ واضح ہو چکا ہے کہ پنجاب کے محاذ پر حکومت کے اتحاد کی کاٹھ کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹنے کو بالکل تیار ہے۔ یہ صورتحال تب سے شروع تھی جب پنجاب میں کپتانی کا قرعہ ڈیرہ غازی خان کے پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والے عثمان بزدار کے نام نکلا تھا۔ عثمان بزدار کے نام پر پہلے تو تحریک انصاف میں مزاحمت ہوئی۔ ظاہر ہے یہاں سینئر وزیر علیم خان، محمود الرشید، میاں اسلم اقبال اور دیگر صاحبان بھی پنجاب کی سیاست کو وفاق کی سیاست پر ترجیح دیتے ہیں اور ق لیگ سے چودھری پرویز الٰہی کابھی وفاق کے بجائے صوبے کی اسمبلی میں رہنے کو ترجیح دینے کے پیچھے بھی یہی وجہ تھی کہ وہ خود کو ایک متبادل وزیراعلیٰ کے طور پر اپنی اتحادی جماعت پی ٹی آئی کو پیش کرتے رہے۔

حکومت نے اس مرحلے پر انہیں پنجاب اسمبلی کا سپیکر بنا کر بظاہر اکاموڈیٹ کیا اور شروع میں تاثر بھی یہی تھا۔ صوبہ دراصل چودھری پرویز الٰہی کی من مرضی سے چلے گا۔ دوسری بڑی اور اہم شخصیت چودھری سرور کی تھی جنہیں سینیٹ سے ہٹا کر اس صوبے کے گورنر ہاؤس میں لا بٹھایا گیا اور کئی حلقوں کی جانب سے انہیں بھی ایک ڈی فیکٹو وزیراعلیٰ کے طور پر پیش کیا جاتا رہا۔ در حقیقت یہیں سے پنجاب میں طاقت کے کئی مراکز ڈھلنے شروع ہوئے اور اب تاثر یہ ہے کہ بیچارے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو چار پانچ شخصیات چلا رہی ہیں اور یوں صوبہ اپنے مرکز سے محروم ہو کر بے سمت اور بے لگام چل رہا ہے۔

عثمان بزدار کی بطور وزیراعلیٰ شخصیت کو ایک بڑا دھچکا وزیراعظم کے ہر اس دورے میں ملتا ہے جس میں وزیراعظم ان کا دفاع کرتے ہیں اور ان کی اہلیت پر زیادہ زور دے کر اپنے سامعین کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جس میں وزیراعلیٰ کے اعتماد کے غبارے سے رہی سہی ہوا بھی نکل جاتی ہے۔ موجودہ صورتحال کیونکر طاری ہوئی؟ ظاہر ہے عمران خان کا طرزِ حکومت وفاق اور صوبے میں وہ نہیں ہے جس کی عادت ن لیگ کے دور میں یا چودھری برادران کے اپنے دور میں رہی۔

اب ملک ایک معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ حکومت کے پاس اب ترقیاتی اور صوابدیدی فنڈز نہیں ہیں اور عمران خان اس صورتحال کو پروان چڑھا رہے ہیں کہ اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کا اصولی کام ترقیاتی کاموں کے بجائے قانون سازی ہے اور یہ صورتحال پاکستان کی روایتی سیاست کو ہرگز قابلِ قبول نہیں۔

چودھری پرویز الٰہی نے جہانگیر ترین سے اس صورتحال کا گلہ بھی کیا۔ دوسری اہم بات عمران حکومت کی صوبہ میں آئے روز بیورو کریسی اور پولیس میں اکھاڑ پچھاڑ ہے ۔ جس سے پہلے صوبائی اسمبلی کے اراکین ہی اپنے ضلعوں میں ڈی پی او اور ڈپٹی کمشنرز کی تعیناتی کی سفارشات اپنی قیادت کے سامنے رکھتے تھے۔ غالباً وہ صورتحال یہ نہیں ہے ۔ اور قوی یقین یہی ہے کہ عثمان بزدار کو بھی عمران خان کی وضع کردہ پالیسیاں اور پردہ کے پیچھے بیٹھی ٹاسک فورس نامی گورننس ماڈل چلا رہی ہے۔ تو یہ صورتحال پی ٹی آئی کے اندر اور باہر خصوصاً ق لیگ کو گوارا نہیں ہے۔

اس تلخ ہوتی صورتحال کے پیچھے تیسری اہم وجہ ضمنی الیکشن کے بعد ق لیگ کی سیٹوں کا برقرار رہنا ہے چونکہ وفاق میں ق لیگ ایک بہتر اتحادی کی شکل میں کھڑی ہے تو لازماً وہ اس کے فوائد پنجاب میں اپنے جیتے ہوئے حلقوں میں چاہ رہی ہے۔ بہر حال اس ملاقات میں یوں انجانے میں کوئی موبائل فون کے کیمرے کے ذریعے اس ہائی لیول میٹنگ کو خفیہ ریکارڈ کرے اور پھر میڈیا میں اپنے من پسند حلقوں کو جاری کرے اس کا امکان کم ہے۔ یہ لازماً ایک پلان ہے جس میں بظاہر گورنر چودھری سرور کو نشانے پر رکھ کر اور طارق بشیر چیمہ کو ساتھ بٹھا کر چودھری پرویز الٰہی نے اپنے دل کی بات کی ہے اور ٹوٹے ہوئے ارمانوں کا رونا رویا ہے۔

لگتا یہی ہے کہ صوبے میں اس اتحاد کے بعد ان کے ہاتھ وہ کچھ نہیں لگ سکا جس کی انہیں امید تھی۔ اس ویڈیو کے لیک ہونے کے بعد لازمی طور پر حکومتی ایوانوں اور فیصلہ سازوں نے اسے مثبت معنوں میں نہیں لیا۔ اسی لیے چودھری پرویز الٰہی کو دوبارہ میڈیا کے نمائندوں کو ساتھ بٹھا کر میڈیا ٹاک کرنی پڑی ہے اور انہوں نے اس صورتحال کا دفاع کیا اور اسے معمول کی بات قرار دیا اور گلے شکوؤں کی بھی تصدیق کی اور حکومت سے تعلقات کو بھی نارمل قرار دیا۔ لہٰذا صورت حال واضح ہو رہی ہے کہ صوبے میں تحریک انصاف اور ق لیگ میں سب اچھا نہیں ہے۔ یہ چودھری طارق بشیر کے ایک حلقے کا مسئلہ ضرور ہوگا مگر اب یہ عثمان بزدار کی وزارتِ اعلیٰ کو لے کر تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعت ق لیگ کے درمیان ‘‘سرد جنگ’’ کا آغاز بن چکا ہے۔

اب آنے والے دنوں میں اس کی تفصیلات دن بدن واضح ہوتی جائیں گی اور آئندہ سینیٹ کی دو سیٹوں کا پنجاب میں انتخاب ہوگا اور اس تلخی کے لازمی اثرات ہمیں نظر آئیں گے۔ سیاسی صورتحال سے ہٹ کر بھی پنجاب کے سیاسی محاذ کا جائزہ لیں تو حکومتی اکھاڑ پچھاڑ پر گہری نگاہ رکھنے والے کھلے طور پر کہتے نظر آ رہے ہیں کہ پنجاب کے سیاسی مورچے پر اس وقت تک گرفت مضبوط نہیں ہوگی جب تک کوئی مؤثر وزیراعلیٰ نہیں ہو گا اور اس وقت مؤثر اور معتبر شخصیت چودھری پرویز الٰہی ہیں۔ لیکن کیا انہیں تحریک انصاف کی صفیں گوارا کریں گی؟