شمالی وزہرستان: زندگی کی بہاریں لوٹ آئیں

Last Updated On 08 January,2019 09:37 am

لاہور: (روزنامہ دنیا ) پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائیوں کے بعد معاملات زندگی کافی حد تک بحال ہوچکے ہیں لیکن علاقے میں حالیہ دنوں میں ہدف بناکر قتل کے واقعات میں اضافے نے پھر سے وزیرستانیوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

گزشتہ روز بی بی سی کی ایک ٹیم بنوں سے وزیرستان روانہ ہوئی تو سب سے پہلے سیدگئی چیک پوسٹ پہنچی جہاں سے شمالی وزیرستان کی حدود کا آغاز ہوتا ہے۔ اس چیک پوسٹ پر پہلے طریقہ کار یہ ہوتا تھا کہ یہاں باقاعدہ اجازت نامہ جاری کیا جاتا تھا، سیدگئی چیک پوسٹ سے صرف وہ افراد گزر سکتے تھے جن کا پہلے سے اندراج ہوچکا ہوتا یا جن کا تعلق وزیرستان سے ہوا کرتا تھا لیکن چیک پوسٹوں پر نرمی کے حالیہ اعلان کے بعد یہاں صورتحال بالکل مختلف نظر آئی۔ چیک پوسٹ پر موجود اہلکاروں نے ٹیک ارکان سے قومی شناختی کارڈ مانگا اور ناموں کے اندراج کے بعد ایک پرچی تھما دی گئی جس میں گاڑی کا نمبر اور اس میں سوار تمام افراد کے کوائف درج تھے۔

چیک پوسٹ سے ذرا آگے ایک اور سکیورٹی اہلکار نظر آیا جس نے وہ پرچی لے کر آگے جانے کا اشارہ کیا اور اس طرح ٹیم وزیرستان کی حدود میں داخل ہونے کے بعد صدر مقام میرانشاہ کی جانب روانہ ہوئی۔ سیدگئی سے میر انشاہ تقریباً 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے لیکن پکی اور کشادہ سڑکوں کی وجہ سے ٹیم بغیر کسی رکاوٹ کے باآسانی وہاں پہنچ گئی۔ ٹیم راستے میں میرانشاہ تک تقریباً پانچ یا چھ چیک پوسٹوں سے گزری لیکن ہر چیک پوسٹ کے قریب پہنچ کر گاڑی کی رفتار کم کر دیتی کہ شاید تلاشی لی جائے گی لیکن روکنے سے پہلے ہی اسے آگے جانے کا اشارہ کیا جاتا اور اس طرح بغیر رکاوٹ کے سفر میرانشاہ پہنچ کر تمام ہوا۔

آپریشن ضرب عضب کے بعد ٹیم پہلی مرتبہ ایسی حالت میں وزیرستان جارہی تھی جب اسے کسی سرکاری اہلکار کی مدد حاصل تھی اور نہ کوئی خوف کی کیفیت تھی۔ شمالی وزیرستان کے سب سے بڑے تجارتی مرکز میرانشاہ میں ہر جانب بازاروں میں رونق اور گہما گہمی نظر آئی۔ میرانشاہ میں آپریشن ضرب عضب کے دوران ہزاروں دوکانیں تباہ ہوئیں جبکہ بمباری کی وجہ سے بنیادی ڈھانچہ بھی بری طرح متاثر ہوا۔ لیکن اب علاقے میں تباہ شدہ مقامات پر نئی مارکیٹیں تعمیر کی گئی ہیں جہاں کاروبار تو ہو رہا ہے لیکن سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے تجارتی سرگرمیاں مندی کا شکار نظر آتی ہے۔

شمالی وزیرستان کے ایک سینئرصحافی احسان داوڑ کا کہنا ہے کہ آپریشنز اور نقل مکانی کی وجہ سے بیشتر بڑے تاجروں نے اپنا سرمایہ بڑے شہروں میں منتقل کر دیا تھا اور نامساعد حالات کے باعث وہ یہاں واپس آنے کے لیے تیار نہیں۔ تاہم انھوں نے کہا کہ چیک پوسٹوں پر نرمیوں کے اعلان کے بعد اب توقع کی جا رہی ہے کہ علاقے میں پھر سے تجارتی سرگرمیاں بحال ہونے کا امکان ہے۔ انھوں نے کہا کہ علاقے میں ایک مثالی امن تو قائم ہے لیکن دوسری طرف بنیادی ڈھانچہ اور بنیادی ضرویات تباہ حالی کا شکار ہیں۔

میرانشاہ پریس کلب میں موجود ایک اور سینئر صحافی حاجی مجتبیٰ نے کہا کہ جب 24 گھنٹوں میں صرف دو گھنٹے بجلی دستیاب ہو تو ایسے میں اپنے علاقوں کو واپس آنے والے افراد کیسے یہاں رہ سکیں گے اور ایسی صورتحال دیگر بنیادی ضروریات کی بھی ہے۔ وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کے بعد امن و امان کی صورتحال کافی حد تک بہتر ہوگئی تھی۔
 

Advertisement