لاہور: (تجزیہ :سعد رسول ) حمزہ شہباز کیخلاف ایک سے زیادہ کیسز کی تحقیقات ہو رہی ہیں، جمعہ کے روز انھیں منی لانڈرنگ کیس میں بلایا گیا، اس میں حمزہ، سلمان، شہباز شریف اور انکے خاندان کے دیگر افراد پر الزام ہے کہ انہوں نے غیر قانونی طریقے سے کالا دھن باہر بھجوایا پھر اسی کو بینکنگ چینلز کے ذریعے واپس پاکستان لائے اور یہ ظاہر کیا کہ ان کے کاروبار میں دیگر لوگوں نے سرمایہ کاری کی ہے اسی کو منی لانڈرنگ کہتے ہیں۔
نیب کا کہنا ہے کہ جب شہباز شریف وزیراعلیٰ تھے اس دوران حمزہ شہباز کے اثاثے 2 ہزار فیصد اور سلمان شہباز کے 8 ہزار فیصد سے بھی زیادہ بڑھے جبکہ ان کے مقامی کاروبار میں ایسی آمدن نہیں تھی جس سے اتنے اثاثے بڑھ سکیں۔ یہ لوٹا ہوا پیسہ ہے جو انہوں نے سفید کر کے اپنے کاروباروں میں سرمایہ کاری کے طور پر دکھایا۔ نیب کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے پاس اسکی منی ٹریل اور شواہد موجود ہیں ان شواہد میں وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے پیسہ بلیک مارکیٹ کے ذریعے باہر بھیجا اور وہاں سے پیسہ لانے کیلئے بینکوں کی ٹی ٹییز بنوائی۔ جب نیب کی عدالت کے سامنے قاسم قیوم اور فضل عباسی کو پیش کیا گیا تو جج نے کہا یہ اومنی ٹو ہے۔ اب قانونی سوال یہ ہے کہ حمزہ شہباز کو گرفتار کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ پہلے یہ جان لیا جائے کہ اس سے پہلے کیا صور تحال تھی۔
حمزہ شہباز کو صاف پانی، رمضان شوگر ملز او ر دیگر اثاثہ جات کے بارے میں نوٹس جاری ہوئے تو وہ ایک دو بار نیب میں پیش ہوئے اور جب ان کو محسوس ہوا کہ شاید انہیں گرفتار کرلیا جائے تو انہوں نے ہائیکورٹ میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دائر کر دی۔ لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے نیب کو نوٹس جاری کر دیا کہ بتائیں کہ کیا شواہد ہیں، ان کو کیوں گرفتار کرنا چاہتے ہیں، تو نیب نے عدالت کو بتایا کہ ابھی تو حمزہ شہباز کو گرفتار کرنے کا ان کا کوئی ارادہ ہی نہیں اس پر عدالت نے اس درخواست کو نمٹا دیا کہ ضمانت قبل از گرفتاری کی ضرورت ہی نہیں اور ساتھ ہی ساتھ حمزہ شہباز کے وکیل کے اصرار پر ایک لائن لکھ دی کہ اگر نیب اس کیس میں حمزہ شہباز کو گرفتار کرنا چاہے تو 10 دن قبل حمزہ شہباز کو بتائے گا تاکہ وہ ضمانت قبل از گرفتار ی کرا سکیں۔
لاہور ہائیکورٹ نے اس سے قبل بھی کئی افراد کے کیسز میں انہی الفاظ کیساتھ حکم دئیے ہوئے تھے جن کے خلاف نیب نے سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی ہوئی تھیں۔ ایسی ہی ایک اپیل پر سپریم کورٹ میں پہلے سماعت ہو گئی، جس میں جسٹس عظمت سعید شیخ نے تمام لوگوں کیلئے قانون کا اصول طے کر دیا کہ نیب کے قانون میں ایسی کوئی شرط (شق ) نہیں ہے جو کہتی ہے کہ گرفتار کرنے سے 10 دن پہلے بتانا ضروری ہے تاکہ وہ عدالت جا سکے۔ نیب کے پاس ٹھوس شواہد ہوں تو وہ کسی کو کسی بھی وقت گرفتار کرسکتی ہے۔ ابھی 19 مارچ کو یہ فیصلہ آیا ہے۔ اس فیصلے اور مزید شواہد کی بنیاد پرنیب نے حمزہ شہباز کو گزشتہ روز بذریعہ نوٹس 10 بجے بلایا تھا، وہ خود پیش ہوئے نہ کسی کو نمائندگی کے لیے بھیجا نہ ہی نیب کو مطلع کیا۔ چونکہ اس سے پہلے اسی طرح کا نوٹس ملنے پر سلمان شہباز ملک سے فرار ہوگئے تھے تو نیب نے سمجھا کہ حمزہ بھی سلمان شہباز کی طرح ملک سے فرار ہو جائیں گے لہذا انکی گر فتاری کا حکم جاری کیا گیا۔
اب دو سوال پیدا ہوتے ہیں ایک یہ کہ حمزہ شہباز بارے ہائیکورٹ کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر اپیل کی سماعت ہو نا باقی ہے مگر اس میں بھی فیصلہ وہی ہو گا جو بالکل اسی طرح کی اپیل پر پہلے ہو چکا ہے، سپریم کورٹ ایک ہی طرح کی اپیلوں پر مختلف فیصلے کر دے، یہ نہیں ہوگا۔ دوسری اس کے اندر قانونی اور سیاسی بات یہ ہے کہ اگر حمزہ شہباز کا یہ خیال ہے کہ انھیں خلاف قانون گرفتار کیا جا رہا ہے تو پھر بھی وہ مزاحمت نہیں کر سکتے۔ جب ریاستی ادارے گرفتار کرنے آجائیں تو گرفتاری دینا لازم ہے، پھر اس کے بعد عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے اگر ملک میں یہ روایت شروع ہو جائے کہ گر فتاری کو غیر قانونی قرار دیکر چار پانچ سو افراد جمع کر کے اہلکاروں کو بھگا دیا جائے تو پھر ہر طرف انتشار ہی ہو گا۔ حتیٰ کہ کو ئی ڈاکو بھی یہ راستہ اختیار کر سکتا ہے۔ کم از کم سیاستدانوں کو ایسی روایت قائم نہیں کرنی چاہیے، ان کو اس پر جو بھی تحفظات ہیں، وہ اس پر عدالت سے رجوع کریں، وہ نیب کی کارروائی کو نہیں روک سکتے، یہ کام صرف اور صرف عدالت کا ہے، یہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔