لاہور: (دنیا نیوز) دنیا یورو 6 پر پہنچ گئی مگر پاکستان میں اب بھی یورو 2 ایندھن استعمال ہو رہا ہے۔
دنیا نیوز کے مطابق پاکستان میں گھٹیا ترین کوالٹی کا یورو ٹو پٹرول 22 کروڑ عوام کے لئے درد سربنا ہوا ہے، کوئی پرسان حال ہے نہ کوئی پلان اور نہ ہی بہتری کا امکان ہے۔
یورو ٹو آئے تئیس سال بیت گئے، یورپ کی یورو 4 کوالٹی کو اپنانا تو دور کی بات ہے۔۔ بھارت تک بھی ہم سے آگے نکل گیا۔ یورو سکس کوالٹی متعارف کرا دی لیکن پاکستان کی نہ کھلی آنکھ۔ وہی ڈھاک کے تین پات۔ متعلقہ ادارے بیٹھ گئے رکھ کے ہاتھ پے ہاتھ۔
دنیا نیوز کے مطابق یورو ون وہ معیار ہوتا ہے جس میں سلفر کی مقدار ایک ہزار پارٹس فی ملین ہوتی ہے۔ یورو 2 میں مقدار 500 پی پی ایم، یورو تھری میں تین سو پچاس، یورو فور میں پچاس جبکہ یورو فائیو اور یوروسکس میں، سلفر صرف دس پی پی ایم رہ جاتا ہے۔ یورو ون پٹرول جولائی 1992ء میں متعارف کرایا گیا۔
یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ایوان پنجاب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اب بیرون ملک سے تیل برآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تین سال میں ٹیکنالوجی لائیں گے، یورو 4 پٹرول درآمد کرینگے، 2020ء میں آخر تک پٹرول 5 یورو پر متنقل کرینگے۔ تین سال میں کوالٹی کنٹرول بہتر نہ کی تو آئل ریفائنریز بند کر دینگے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ماحول کو آلودگی سے بچانے کے لیے لاہور میں 60ہزار کنال جگہ پر جنگلات لگائیں گے،جگہ کا تعین کر لیا گیا ہے،ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے میں مدد ملے گی جس کے اثرات لانگ ٹرم ہونگے۔
پاکستان میں کئی مہینے، کئی سال ، متعلقہ ادارے سوتے رہے؟ دیر سے آنکھ کھلی تو جنوری 2017ء میں یورو ٹو، متعارف کرا کے اپنی جان چھڑا لی۔
پاکستان میں صرف 30 فیصد پٹرول تیار ہوتا ہے، پارکو، اٹک، نیشنل ریفائنری، پاکستان ریفائنری، بائیکو ریفائنری بھی صرف یورو ٹو پر اکتفا کرتے ہیں۔
عوام بہترین کوالٹی کے لئے خوارہیں لیکن پٹرول کے لئے ہمارا ستر فیصد دیگر ممالک پر انحصار ہوتا ہے، درآمدی ممالک میں سعودی عرب، ایران، اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ قطر، یو اے ای، بحرین اور سعودی عرب کا 2020ء تک یورو 6 پٹرول متعارف کرانے کا پلان ہے۔ ایران نے یورو فائیو سے سکس تک چھلانگ لگانے کی منصوبہ بندی کر لی ۔
انڈیا نے یورو تھری اور فورفیول کی تیاری کے لیے آئل ریفائنریز پر 550 ارب روپے خرچ کر ڈالے۔ دوہزار بیس تک اس سیکٹر میں مزید 300 ارب روپے انویسٹ کرنے کا پلان بنا رکھا ہے ۔
بھارت 2000ء میں یورو ون پر تھا۔ دوہزار پانچ تک یورو ٹو پر گیا جبکہ دوہزار دس تک یورو تھری کیٹگری حاصل کر لی۔ دوہزار سولہ میں اس نے یورو 4 جبکہ دوہزار سترہ میں یورو فور کوالٹی متعارف کرائی۔ بھارت نے دوہزار بیس تک پورے ملک میں یورو سکس کوالٹی ہی لانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس طرح ، بھارت، امریکا، جاپان، اور یورپی یونین کی صف میں کھڑا ہو گیا ہے۔
یورو سکس کی نسبت، خطرناک کیمیکلز پرمشتمل، یورو ٹو کے استعمال سے گاڑیوں کے انجن وقت سے پہلے زندگی پوری کرلیتے ہیں۔
ادھر پمپس مالکان پٹرول میں ملاوٹ کا اعتراف کرتے ہیں، تاہم ان کا شکوہ ہے، توجہ دلانے کے باوجود حکومت اس طرف کان نہیں دھرتی
صدر پٹرول پمپز ایسوسی ایشن آف پاکستان عبد السمیع کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں ایرانی پٹرول بڑی مقدار میں آ رہا ہے اور وہ بہت سستا ہے جس کے بعد پاکستانی اس پٹرول کو مکس کر کے بیچتے ہیں، یہ پٹرول بلوچستان سے ہوتا ہوا ساری جگہ جاتا ہے۔
لیبارٹری ٹیسٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ہماری ریفائنریاں، کم معیار کے پٹرول میں آکٹین لیول بڑھانے کےلیےخطرناک کیمیکلز کا استعمال کر رہی ہیں ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان نےا ٓج تک، اقدامات کیوں نہیں کئے؟ سابق سیکریٹری پٹرولیم جی اے صابری، کا موقف ہے کہ ہم نے، انیس سو پچانوے میں یورو ٹو، یورو تھری کی منصوبہ بندی کی تھی۔
گاڑیوں کے انجن کی زندگی کا کیا رونا۔۔ غیر معیاری پٹرول اور انجن سے نکلنے والی گیسوں سے زندہ رہنے کےلئے سانس لینا بھی محال ہو گیا ہے۔ ماہرین ماحولیات بھی صورتحال سے شدید پریشان ہیں
یورو ٹو کےباعث گاڑیوں سے نکلتا خطرناک سیاہ دھواں، ایک نہیں، کینسر سمیت درجنوں جان لیوا بیماریوں کا باعث ہے۔ ان بیماریوں میں کینسر، ہیپاٹائٹس، بچوں کی نشوونما میں کمی، جسمانی اور دماغ کا نشوونما متاثر ہونا ہے۔ معذوری، دمہ ،جلدی مسائل ، ناک کی بیماریاں،گلے کی خراش، کھانسی، بلغم، خون کے مسائل،نظام تنفس میں خرابی ،سینے اور پھیپھڑوں کی بیماریاں شامل ہیں۔