پرویز مشرف سنگین غداری کے مرتکب، ملزم کو سزائے موت سنائی جاتی ہے: تفصیلی فیصلہ

Last Updated On 20 December,2019 11:24 am

اسلام آباد: (دنیا نیوز) خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔ عدالت نے مشرف کو فرار کرانیوالوں کیخلاف بھی کارروائی کا حکم دے دیا۔

 ‏خصوصی عدالت کے 3 رکنی بنچ نے دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ سنایا۔ جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس شاہد کریم نے سزائے موت کا فیصلہ دیا جبکہ جسٹس نذر اکبر نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے مشرف کو بری کیا اور اختلافی نوٹ میں کہا استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ جسٹس نذر اکبر کا اختلافی نوٹ 44 صفحات پر مشتمل ہے۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ پرویز مشرف کو دفاع کا موقع دیا گیا، ملزم پر تمام الزامات ثابت ہوتے ہیں، دستاویزات میں واضح ہے ملزم نے جرم کیا، پرویز مشرف سنگین غداری کے مرتکب پائے گئے، تمام الزامات کسی شک و شبہ کے بغیر ثابت ہوتے ہیں، ہائی ٹریزن ایکٹ 1973 کے تحت مشرف کو پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے، ملزم کو ہر الزام پر علیحدہ علیحدہ سزا دی جاتی ہے۔

فیصلے میں سیکیورٹی اداروں کو پرویز مشرف کی گرفتاری کا حکم دیا گیا۔ جسٹس وقار سیٹھ نے کہا مشرف فوت ہوگئے تو لاش ڈی چوک لائی جائے۔ جسٹس شاہد کریم نے جسٹس وقار کے مثالی سزا سے متعلق پیرا گراف سے اختلاف کیا اور کہا مثالی سزا کی قانون میں گنجائش نہیں ہے، یہ غیر آئینی ہوگی۔

 تفصیلی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے، پرویز مشرف کے کریمنل اقدام کی تفتیش کی جائے، آئین عوام اور ریاست کے درمیان معاہدہ ہے، استغاثہ کے مطابق ملزم مثالی سزا کا مستحق ہے، غداری کیس 2013 میں شروع ہو کر 6 سال بعد ختم ہوا، مشرف کو حق سے زیادہ شفاف ٹرائل کا موقع دیا، کیس کا ریکارڈ رجسٹرار کی تحویل میں رہے گا۔

فیصلہ مشکوک، اعلیٰ عہدوں پر موجود لوگوں نے مجھے ٹارگٹ کیا: پرویز مشرف 

 فیصلے میں بلیک لا ڈکشنری کا حوالہ بھی دیا گیا، بلیک لا ڈکشنری کے تحت غیر آئینی لفظ کی تشریح کی گئی، تفصیلی فیصلے میں آکسفورڈ ڈکشنری کا بھی ذکر کیا گیا۔ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا اعلیٰ عدلیہ نے نظریہ ضرورت متعارف نہ کرایا ہوتا تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا، نظریہ ضرورت کے باعث یونیفارم افسر نے سنگین غداری کا جرم کیا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ جرم کا ارتکاب سنگین غداری کے جرم میں آتا ہے، آرٹیکل 6 عمرانی معاہدے کو چیلنج کرنیوالے کا مقابلہ کرتا ہے، آئین آرمی چیف کو کسی غیر آئینی اقدام کا اختیار نہیں دیتا، ایک لمحے کی بھی معطلی آئین کو اٹھا کر باہر پھینکنے کے مترادف ہے، ملک میں ایمرجنسی لگا کر آئین کو معطل نہیں کیا جاسکتا۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ممبران افواج پاکستان سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کی قسم کھاتے ہیں، حلف کے تحت ممبران افواج پاکستان آئینی بالادستی، ملک سے وفاداری کے پابند ہیں، افواج پاکستان کے ہر ممبر نے ملکی خدمت کی قسم کھائی ہوتی ہے، افواج کی اعلیٰ قیادت کے ہر ممبر نے آئین کا تحفظ نہ کر کے حلف کی خلاف ورزی کی۔

تفصیلی فیصلہ پڑھیں: 

 یاد رہے سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو سزائے موت کا حکم دیا تھا۔ سابق صدر نے 12 اکتوبر 1999 کو اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو معزول کر کے اقتدار پر قبضہ کیا، 12 اکتوبر 1999 کو اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الدین بٹ کو جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر نیا آرمی چیف بنایا لیکن جبری ریٹائر کیے گئے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم کا فیصلہ قبول نہ کیا جس کے بعد ٹرپل ون بریگیڈ نے وزیراعظم سیکریٹریٹ پر قبضہ کرلیا اور جمہوری وزیراعظم کو ہتھکڑی لگا کر معزول کر دیا۔

3 نومبر 2007 کو پرویز مشرف نے ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے 1973 کے آئین کو معطل کر دیا جس کی وجہ سے چیف جسٹس آف پاکستان سمیت اعلیٰ عدالت کے 61 ججز فارغ ہوگئے، جب چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری غیر فعال ہوئے تو وکلا کی تحریک ملک گیر عوامی تحریک بن گئی۔

28 نومبر 2007 کو پرویز مشرف سیاست سے ریٹائر ہوئے اور فوج کی کمان جنرل اشفاق پرویز کیانی کو سونپ دی، 29 نومبر 2007 کو ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے عوامی صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ 15 دسمبر 2007 کو پرویز مشرف نے ایمرجنسی ختم کی اور عبوری آئینی حکم نامہ (پی سی او) واپس لیا اور صدارتی فرمانوں کے ذریعے ترمیم شدہ آئین کو بحال کیا۔ سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور وفاقی شرعی عدالتوں کے چیف جسٹس اور ججز نے ایک بار پھر حلف اٹھایا۔ 18 اگست 2008 کو پرویز مشرف کو استعفیٰ دینا پڑا اور یوں ملک میں ایک اور طویل دور آمریت کا خاتمہ ہوگیا۔

واضح رہے سابق وزیراعظم نواز شریف نے 26 جون 2013 کو ایف آئی اے کو انکوائری کے لئے خط لکھا جس میں کہا گیا وزارت داخلہ پرویز مشرف سنگین غداری کے الزامات کی تحقیقات کے لئے خصوصی ٹیم تشکیل دے جس پر وزارت داخلہ نے ایف آئی اے کی ٹیم تشکیل دی۔

ایف آئی اے نے انکوائری کر کے وزارت داخلہ کو اپنی رپورٹ 16 نومبر کو جمع کروائی، انکوائری رپورٹ کے تناظر میں لاء ڈویژن کی مشاورت سے 13 دسمبر 2013 کو پرویز مشرف کے خلاف شکایت درج کرائی گئی۔ شکایت میں پرویز مشرف کے خلاف سب سے سنگین جرم متعدد مواقع پر آئین معطل کرنا تھا۔

خصوصی عدالت نے 24 دسمبر 2013 کو پرویز مشرف کو بطور ملزم طلب کیا، سابق صدر پر 31 مارچ 2014 کو فرد جرم عائد کی گئی، پرویز مشرف نے صحت جرم سے انکار کیا تو ٹرائل کا باقاعدہ آغاز کیا گیا، 18 ستمبر 2014 کو پراسیکیوشن نے پرویز مشرف کے خلاف شہادتیں مکمل کیں۔

شہادتیں مکمل ہونے پر پرویز مشرف کو بطور ملزم بیان ریکارڈ کرانے کا کہا گیا تاحال پرویز مشرف کا بطور ملزم بیان قلم بند نہ کیا جا سکا تھا، پرویز مشرف کو مسلسل عدم حاضری پر پہلے مفرور اور پھر اشتہاری قرار دیا گیا۔

تحریک انصاف حکومت نے 23 اکتوبر 2019 کو پراسیکیوشن ٹیم کو ڈی نوٹیفائی کر دیا، پراسیکیوشن ٹیم کی تعیناتی فوجی دور حکومت میں کی گئی تھی، ڈی نوٹیفائی پراسیکیوشن ٹیم نے 24 نومبر 2019 کو خصوصی عدالت میں تحریری دلائل جمع کروائے۔

خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے خلاف کیس کا فیصلہ سنانے کے لئے 28 نومبر کی تاریخ مقرر کی، وزارت داخلہ اور پرویز مشرف کے وکیل نے فیصلہ روکنے کے لئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی۔ 27 نومبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روک دیا تھا۔

Advertisement