عمران فاروق قتل کیس کی تحقیقات تکمیل کو پہنچ گئیں، برطانوی ہائی کمیشن

Last Updated On 18 June,2020 05:28 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) برطانوی ہائی کمیشن نے عمران فاروق قتل کیس کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ آج تحقیقات تکمیل کو پہنچ گئیں۔

برطانوی ہائی کمیشن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ اور پاکستان کی مشترکہ کارروائیوں کے بعد مجرموں کو سزا سنائی گئی۔ لندن کی میٹروپولیٹن کے ثبوت عدالتی کارروائی میں استعمال ہوئے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ محسن علی کو عمران فاروق کے قتل اور سازش کا مرتکب قرار دیا گیا جبکہ محمد کاشف کو بھی شریک مجرم کے طور پر سزا سنائی گئی۔ دونوں مجرموں کے خلاف تحقیقات کے دوران ایم کیو ایم سے تعلق ثابت ہوا۔ تحقیقاتی ٹیم نے تصدیق کی کہ قتل سیاسی وجوہات کی بنا پر ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: معظم علی، خالد شمیم اور محسن علی کو عمر قید کی سزا

خیال رہے کہ اسلام آباد کی انسداد دہشتگردی عدالت نے ایم کیو ایم کے رہنما عمران فاروق کے قاتلوں خالد شمیم، معظم علی اور محسن علی سید کو عمر قید اور دس دس لاکھ جرمانے کی سزا سنا دی ہے۔ متحدہ بانی سمیت چار مفرور ملزمان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دئیے گئے ہیں۔

عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے 21 مئی کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ خالد شمیم، معظم علی اور محسن علی سید پر عمران فاروق کو قتل کرنے کی سازش، معاونت اور سہولت کاری کا الزام ثابت ہو گیا۔ عمران فاروق کو قتل کرنے کا حکم متحدہ بانی نے دیا اور نائن زیرو سے لڑکوں کا انتخاب کیا گیا، عمر قید کیساتھ تینوں مجرموں کو 10، 10 لاکھ روپے مقتول کے اہلخانہ کو ادا کرنے کی سزا سنائی جاتی ہے۔

39 صفحات پر مشتمل فیصلے میں مزید کہا گیا کہ عمران فاروق کو قتل کرنے کا مقصد یہ پیغام دینا تھا کہ کوئی بھی شخص متحدہ بانی کیخلاف بات نہیں کرسکتا، عمران فاروق قتل کیس دہشتگردی کے مقدمے کی تعریف پر پورا اترتا ہے، ملزمان سزائے موت کے حقدار ہیں لیکن برطانیہ نے شواہد اس بنیاد پر دئیے تھے کہ ملزمان کو سزائے موت نہیں دی جائے گی، اس لیے ملزمان کو عمر قید دی جاتی ہے۔

خیال رہے ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو برطانیہ میں قتل کیا گیا تھا جس کے بعد ایف آئی اے نے 5 دسمبر 2015 کو پاکستان میں اس قتل کا مقدمہ درج کیا جس میں تین ملزمان خالد شمیم، محسن علی اور معظم علی کو گرفتار کیا گیا، جن پر قتل سمیت قتل کی سازش تیار کرنے، قتل میں معاونت اور سہولت کاری کے الزامات عائد کیے گئے۔

پاکستانی حکومت کی جانب سے برطانیہ کو دوران ٹرائل جرم ثابت ہونے کے باوجود ملزمان کو سزائے موت نہ دینے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔