لاہور: (دنیا نیوز) لاہور ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم نوازشریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو برطرف کردیا۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد قاسم خان کی زیر صدارت انتظامی کمیٹی نے ارشد ملک کو برطرف کرنے کی منظوری دی۔
لاہور ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی کا اہم اجلاس ہوا جس کی صدارت چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد قاسم خان نے کی، لاہور ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی کے 7 سنیئر ججز بھی شریک رہے۔ اجلاس میں جسٹس ملک شہزاد احمد خان، جسٹس شجاعت علی خان، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس علی باقر نجفی نے شرکت کی۔ لاہور ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی نے جج ارشد ملک کو برطرف کرنے کی منظوری دی۔
6 جولائی 2019 کو صدر ن لیگ شہباز شریف، مریم نواز، شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال نے مشترکہ پریس کانفرنس کی تھی جس میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیوز جاری کی گئیں۔ویڈیوز کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا دباؤ پر سنائی گئی۔
7 جولائی کو رجسٹرار احتساب کورٹ نے جج ارشد ملک کا تردیدی بیان جاری کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ مجھ پر بالواسطہ یا بلا واسطہ کوئی دباؤ نہیں تھا۔ کوئی لالچ بھی میرے پیش نظر نہیں تھا۔
12جولائی کو ترجمان اسلام آباد ہائی کورٹ کے مطابق جج ارشد ملک کی خدمات وزارت قانون کو واپس کر دی گئیں۔ اس روز ہی ارشد ملک کو اسلام آباد کی احتساب عدالت سے فارغ کر کے ان کی خدمات لاہور ہائی کورٹ کو واپس کر دی گئیں۔
16 جولائی کو سپریم کورٹ نے پہلی بار ویڈیو سکینڈل کیس کی سماعت کی،اسی روز ہی سپریم کورٹ آف پاکستان میں ویڈیو اسیکنڈل بارے اشتیاق مرزا ایڈوکیٹ کی دائر درخواست سماعت کے لیے منظور کر لی گئی، 16جولائی کو ہی کیس سماعت کے لیے مقرر کر دیا گیا۔
16 جولائی کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو جج نے کہا وہ انتہائی غیر معمولی باتیں ہیں۔ سپریم کورٹ کوئی فیصلہ دے گی تو ہائیکورٹ میں زیر سماعت کیس پر اثر پڑے گا۔
16 جولائی کو ہی جج ارشد ملک نے الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 کے تحت ایف آئی اے کو درخواست دی جس پر ایف آئی اے نے سائبر کرائم کی شقوں کے تحت ان کی ویڈیو بنانے کے حوالے سے مقدمہ درج کیا۔
17 جولائی کو ایف آئی اے نے ویڈیو فراہم کرنے میں ملوث ایک ملزم طارق محمود کو گرفتار کیا، 23جولائی کو سپریم کورٹ نے جج ارشد ملک کے ویڈیو کیس پر ایف آئی اے کو 3 ہفتوں میں مکمل تحقیقات کا حکم دے دیا۔
20 اگست کو سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے ویڈیو سکینڈل کیس کی سماعت پر فیصلہ محفوظ کیا، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ نوازشریف کی رہائی اور سزا کے خاتمے کے لیے ویڈیو فائدہ مند تب ہوگی جب کوئی درخواست دائر کی جائے گی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے جمعہ 23 اگست کو اس اہم کیس کا فیصلہ سنایا، عدالت نے کہا کہ جج ارشد ملک کی 7 جولائی کی پریس ریلیز اور 11 جولائی کا بیان حلفی اُن کے خلاف فرد جرم ہے، 14 ستمبر 2019 کو جج ارشد ملک کو او ایس ڈی بنا دیا گیا۔
24 دسمبر 2018 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے 2 ریفرنسز بارے فیصلہ سنایا تھا۔ احتساب عدالت نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف کو 7 سال قید کی سزا سنائی تھی اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم کو باعزت بری کیا تھا۔
نوازشریف پر 10سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدے پر فائز ہونے پر پابندی عائد کی گئی تھی اور ان کے نام تمام جائیداد ضبط کرنے سمیت تقریباً پونے چار ارب روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا۔