لاہور: (دنیا مانیٹرنگ) لاہور کی تین بہنوں نے دوسروں کے رحم وکرم پر زندگی گزارنے کے بجائے خود باہر نکل کر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کو ترجیح دی اور رکشا چلا کر دیگر خواتین کیلئے ایک مثال قائم کر دی ہے۔
نسرین بی بی، صائمہ خاتون اور شہناز بی بی نے قسطوں پر رکشے لے کر اپنا کام شروع کیا اور اس سے وہ اپنا گزر بسر کر رہی ہیں۔‘ انڈپینڈنٹ اردو’ سے بات کرتے ہوئے نسرین بی بی نے بتایا کہ ان کے گھریلو حالات ٹھیک نہیں تھے، بچے چھوٹے ہیں اور کوئی سربراہ بھی نہیں ہے جو کما کر دے، لہذا وہ خود ہی محنت کرنا چاہ رہی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ میری ایک بہن کے شوہر کا انتقال ہو گیا اور دوسری بہن کا شوہر بیمار ہے، اس لیے لوگوں کے گھروں میں کام کرنے کے بجائے انہوں نے باہر نکل کر کچھ کرنے کا سوچا۔
نسرین کے مطابق ان تینوں بہنوں نے پہلے رکشا چلانا سیکھا اور پھر پانچ ہزار روپے ماہانہ اقساط پر اسے خرید لیا۔ انہوں نے کہا مانگنے یا اچھا برا کام کرنے سے یہ کام بہتر ہے۔
دوسری بہن صائمہ نے کہا ہماری کوئی آمدنی نہیں تھی، ہمت کرکے اپنی ایک دوست سے رکشا چلانا سیکھا، پھر اپنے بچوں کی تعلیم کیلئے رکشا چلانا شروع کیا۔
تیسری بہن شہناز بی بی نے کہا وہ بھی رکشے کے ذریعے اپنا مناسب روزگار کما کر خوش ہیں۔ نسرین بی بی نے بتایا ہمیں یہ خوف تھا کہ باہر نکل کر کوئی بھی کام کیا تو لوگ تنگ کریں گے لیکن جب ان کی بہن صائمہ نے بتایا کہ ان کی ایک دوست رکشا چلاتی ہے تو ہم نے اسے رکشا سیکھنے کا مشورہ دیا، اس نے اپنی دوست سے رکشا چلانا سیکھا اور ہم نے اپنی اس بہن کو قسطوں پر رکشا دلوایا، پھر اس نے باقی دو بہنوں کو رکشا چلانا سکھا دیا۔
اس کے بعد ان دونوں نے بھی اپنا زیور بیچا اور قسطوں پر رکشے خرید لیے۔ نسرین کا کہنا ہے کہ اب وہ رکشا چلا کر اپنا باعزت روزگار کما رہی ہیں۔ انہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شروع میں ان کے خیالات تھے کہ باہر نکلنا ان کیلئے مشکل ہو گا، وہ غلط ثابت ہوئے۔
بقول نسرین انہیں حیرانی ہوئی جب باہر لوگوں نے انہیں رکشا چلاتے دیکھ کر حوصلہ افزائی کی۔ نسرین بی بی کے خیال میں خواتین ہوں یا مرد اگر اپنے کام سے کام رکھیں اور ایمانداری سے فرائض ادا کریں تو کوئی مشکل نہیں۔ انہوں نے کہا سکول کالجز میں بچیوں کو لانے لے جانے پر لوگ انہیں زیادہ بہتر سمجھتے ہیں اور ان پر اعتماد کرتے ہیں۔