لاہور: (دنیا نیوز) سابق سربراہ کالعدم بی این اے گلزار امام شمبے نے کہا کہ 2009ء سے مسلح جدوجہد سے وابستہ رہا، ریاست کیخلاف انتہا تک گیا، میرے حکم پر قتل، بم دھماکے ہوئے، 2017ء میں بھارت بھی گیا۔
دنیا نیوز کے پروگرام "آن دی فرنٹ" میں گفتگو کرتے ہوئے کالعدم تنظیم کے سربراہ نے بتایا کہ اخبار میں کام کیا، ٹیچر بننے کی کوشش کی لیکن نہیں بن سکا، حالات نے ہتھیار اٹھانے پر مجبور کر دیا، بلوچستان میں 2001ء کے بعد نوجوانوں کی بڑی تعداد مسلح ہوئی، اس وقت کچھ علاقے فوج کے لیے نوگو ایریاز بن گئے تھے، تب ہی نوگو ایریاز میں چلا گیا اور مسلح تنظیم کو جوائن کیا۔
یہ بھی پڑھیں: گزشتہ چار برسوں میں گوادر منصوبہ پر کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی: احسن اقبال
گلزار شمبے نے کہا کہ بلوچستان میں وسائل کےباوجود ڈویلپمنٹ نہیں ہوئی، مسلسل ناانصافیوں کی وجہ سےایسے حالات بنتے ہیں، اس وقت حالات کو دیکھ کر ہتھیار اٹھائے، ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کیا، مکران ریجن کا کمانڈر رہا ہوں، براہمداغ بگٹی سے کبھی کبھار رابطہ ہوتا تھا۔
کامران شاہد کے ایک سوال پر جواب دیتے ہوئے گلزار شمبے نے کہا کہ ہتھیار چھوڑنے پر والدہ بھی خوش ہوئی، بلوچستان کے مقامی لوگوں کی جانب سے بہت زیادہ زیادتیاں ہوئیں، روایات کے نام پر بلوچستان کوبہت پسماندہ رکھا گیا، آج محسوس کر رہا ہوں جنگیں تباہیاں ہی لاتی ہیں، آج اندازہ ہوا ہے بلوچستان کے مسائل کے حوالے سے مجھے صحافی بن کر ہی آواز اٹھانی چاہیے تھی۔
گلزار شمبے کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان معدنی وسائل کے حوالے سے مالا مال صوبہ ہے، اس کے بنیادی مسائل کے حوالے سے مذاکرات ہونے چاہئیں، انہوں نے کہا کہ میں ٹھیکیدار بھی رہا ہوں، جب ہرجگہ کرپشن ہو گی تو بہتر سکول، ہسپتال نہیں بنا سکتے، بلوچستان کے سسٹم میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شیل پیٹرولیم کا پاکستان میں اپنے تمام شیئرز فروخت کرنے کا اعلان
2009ء سے مسلح جدوجہد سے وابستہ رہا، میرے حکم پر قتل اور بم دھماکے ہوئے، ریاست کے خلاف انتہا تک گیا ہوں، عام لوگوں کے مارے جانے کا احساس ہے، مجھ پر کوئی پریشر نہیں دل سے یہ باتیں کر رہا ہوں، ایک سال سے زائد ہوا مجھے چیزوں کا احساس ہوا، میری گرفتاری کا کریڈٹ انٹیلی جنس اداروں کو جاتا ہے، بلوچستان کے کچھ انفارمر بھی ملوث تھے، بلوچستان کے نوجوانوں کو پیغام ہے تعلیم کی طرف توجہ اور ترقی میں اپنا پرامن کردار ادا کریں، ریاست بلوچستان کے نوجوانوں کو حقوق دے۔
یہ بھی پڑھیں: کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کا حصہ رہنے والے قومی دھارے میں شامل ہونے پر خوش
کالعدم تنظیم کے سربراہ نے مزید کہا کہ افغانستان میں تو اسلحے کی ہر طرح کی مارکیٹیں ہیں، منشیات کو ضبط کر کے عالمی منڈی میں بیچ کر اسلحہ خریدتے تھے، بلوچستان کے نوگو ایریاز سے آپریٹ کرتے تھے، جب بیمار ہوا تو افغانستان چلا گیا اور وہاں سے بھی آپریٹ کرتے تھے، 2017ء میں بھارت بھی گیا، بھارت افغانستان کے پاسپورٹ پر گیا تھا، ایک بار آگرہ تاج محل دیکھنے گیا تھا۔
گلزار شمبے نے کہا کہ سیاست کرنے کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں ہے، پاکستان اور بھارت کو آپس کے اختلافات کو ختم کرنا چاہئیں، پاکستان اور بھارت کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے سوچنا چاہیے، جنگوں کے لیے اسلحہ خریدنے کے بجائے پسے ہوئے طبقات کا سوچنا ہوگا، لڑائی سے تباہی کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔
یہ بھی پڑھیں: بپر جوائے: بجلی کی پیداوار میں کمی، ایل این جی کی ترسیل بھی متاثر
سربراہ کالعدم تنظیم کا کہنا تھا کہ جب جنگ ہوتی ہے تو لوگ مسنگ بھی ہو جاتے ہیں، مسنگ پرسن کا مسئلہ سنجیدہ ہے، اس مسئلے کو حل ہونا چاہیے، جو مسنگ ہیں انہیں عدالتوں میں پیش کرنا چاہیے، مسنگ پرسن اور میرا بھی ٹرائل ہونا چاہیے، درخواست کروں گا ایسی پالیسی بنائی جائے اور عام معافی کا اعلان کیا جائے، بلوچستان کے حوالے سے سنجیدہ پالیسی کے مثبت اثرات پڑیں گے، امید کرتا ہوں ریاست دوسرے لوگوں کے تحفظات بھی دور کرے گی۔
گلزار شمبے نے کہا کہ مسلح مزاحمت، شدت پسندی تاریخ کا حصہ رہی ہے، میں نے جو راستہ اختیار کیا وہ غلط تھا، اپنی غلطی کا اعتراف پریس کانفرنس میں بھی معافی کے ساتھ کر چکا ہوں، جن کے لوگ دنیا سے چلے گئے اللہ انہیں صبر دے۔