سپریم کورٹ نے سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا

Published On 10 January,2024 03:08 pm

اسلام آباد: (دنیانیوز/ویب ڈیسک ) سپریم کورٹ نے سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ۔

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے 23 اکتوبر 2023 کو مختصر حکمنامہ سنایا تھا، پانچ رکنی بنچ کی سربراہی جسٹس اعجاز الاحسن کر رہے تھے جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس مظاہر اکبر نقوی بھی بنچ کا حصہ تھے۔

سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ 125 صفحات پر مشتمل ہے، فیصلہ بنچ کے رکن جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے فیصلے کی ابتدا لارڈ ایٹکن کے 1941 کے ایک جملے سے کی ، لارڈ ایٹکن نے اپنی مشہورزمانہ تقریر میں کہا تھا کہ برطانیہ میں بدترین جنگ میں بھی قوانین خاموش نہیں تھے، برطانیہ میں بدترین جنگ میں بھی قوانین وہی تھے جو حالت امن میں تھے۔

23 اکتوبر 2023 کو سنایا گیا مختصر فیصلہ بھی تفصیلی فیصلے کا حصہ ہے جس کے مطابق سپریم کورٹ سے بنیادی حقوق سے متعلق سوال پوچھا گیا، سپریم کورٹ سے پوچھا گیا کہ کیا آئین کے تحت سویلینز کا فوجی ٹرائل ہوسکتا ہے۔

تفصیلی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ سپریم کورٹ سے پوچھا گیا کہ سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل پر آئین کیا کہتا ہے، درخواست گزاروں نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل پر عدالت کی رائے مانگی۔

آرمی ایکٹ کی کالعدم دفعات پر وضاحت

سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں آرمی ایکٹ کی کالعدم دفعات پر اہم وضاحت کر دی، کالعدم دفعات کے تحت ماضی میں ہو چکے فیصلوں پر اثر نہیں پڑے گا، جن سزا یافتہ افراد کی اپیلیں زیر التوا ہیں وہ متعلقہ فورم پر سزاؤں کی قانونی حیثیت کا معاملہ اٹھا سکیں گے۔

تفصیلی فیصلے کے مطابق آرمی ایکٹ کا ایک سیکشن 1967 میں اس وقت شامل ہوا جب ملک میں مارشل لاء نافذ تھا، کرنل ریٹائرڈ ایف بی علی کیس میں جب سزائیں دی گئیں اس وقت ملک میں عبوری آئین تھا، 9 اور 10 مئی کے دو دنوں میں فوجی تنصیبات پر حملے کئے گئے ، شہدا کے مجسموں کو نقصان پہنچا گیا۔ 

فیصلے میں کہا گیا کہ کور کمانڈر کے گھر پر حملہ ہوا، اعلیٰ حکومتی سطح پر یہ فیصلہ ہوا کہ ملوث ملزمان کے خلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل چلایا جائے گا، سب کی ایک ہی متحد آواز تھی کہ ایسے واقعات پر قانون حرکت میں آنا چاہیے ، اس کے بعد مختلف تھانوں میں ایف آئی آرز درج ہونا شروع ہوئیں، فوجی حکام نے متعلقہ دہشت گردی کی عدالتوں سے رجوع کر کے متعلقہ ملزمان کی حوالگی مانگی، نتیجے میں 103 ملزمان کو فوجی عدالتوں کی حراست میں دیا گیا۔
جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس یحییٰ کا اضافی نوٹ

تفصیلی فیصلے میں جسٹس عائشہ ملک کا اضافی نوٹ بھی شامل ہے، انہوں نے 48 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ تحریر کیا ہے۔

جسٹس یحیی آفریدی نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا ہے کہ 9 مئی ملزمان کا سول عدالتوں میں قانون کیمطابق ٹرائل ہونا چایئے، ایسے کوئی شواہد نہیں کہ مظاہرین نے دفاع پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔

تفصیلی فیصلے کے مطابق آئین دو صورتوں میں چلتا ہے، ایک امن کے اور دوسرا ایمرجنسی کے زمانے میں، ایمرجنسی کا نفاذ آرٹیکل 232 کے تحت ملک کو درپیش خطرات کی صورت میں ہوتا ہے، آرمی ایکٹ کی کالعدم قرار دی گئی شقیں ایسے وقت میں شامل کی گئیں جب ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ تھا۔

تفصیلی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ ملک میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں  ٹرائل کے لیے کی گئی ترمیم بھی 2019 میں ختم ہوچکی۔