علامہ محمد اقبالؒ کا فکر و فلسفہ

Published On 21 April,2024 12:48 pm

لاہور: (ڈاکٹر طاہر حمید تنولی) ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبالؒ بیسویں صدی کی نابغہ روزگار شخصیت تھی، وہ ایک معروف شاعر، مفکر، فلسفی، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کے اہم رہنما تھے۔

اپنے فکر و فلسفہ اور سیاسی نظریات سے اقبالؒ نے برصغیر کے مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا، ان کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی، شاعری میں بنیادی رُجحان تصوف، احیائے ملتِ اسلامیہ اور فروغِ عظمتِ انسان تھا، ان کا کلام ہمہ جہت موضوعات اور خیالات پر مبنی ہے، اس میں انسان، معاشرہ اور کائنات سبھی شامل ہیں۔

انہوں نے انسان کی داخلی کیفیات، خارجی اثرات، نفسیات سمیت مدنیات، فطرتِ حیات اور آفاقی خیالات کو شاعرانہ رنگ و آہنگ میں پیش کیا ہے، انہوں نے فطرت سے بھی کلام کیا اور اس کے خالق سے بھی ہم کلام ہوئے، اپنے ہم وطنوں میں ولولہ تازہ پیدا کیا، مسلمانوں میں انقلابی روح پھونکی اور بنی نوع انسان کو خود شناسی کا پیام دیا، ان کی شاعری نے زندگی کی نئی اور تابناک راہوں کا تعین کیا جس پر چل کر انسان عظمت کی بلندیاں سر کر سکتا ہے۔

اقبالؒ نے اپنے شاعری اور فلسفے کے ذریعے مشرق و مغرب کی حکمت و دانائی کو یکجا کر کے حقیقت حیات تک رسائی آسان بنا دی ہے جو انسان کو تخت معراج تک پہنچا سکتی ہے، اقبال غالباً دنیا کے واحد فلسفی ہیں جو شعر کو ذریعہ اظہار بنا کر فن اور فکر کو یکجا کر دیتے ہیں لیکن انہیں شعر اور فلسفے کے فرق کا ادراک تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ آپس میں مدغم ہو کر کہیں بھی تضاد پیدا نہیں کرتے۔

اقبالؒ ملت اسلامیہ کے وہ دیدہ بینائے قوم ہیں جنہوں نے ایک زوال پذیر قوم کو اپنے مسیحا صفت کلام سے حیات نو عطا کی اور ان کی بے منزل جدوجہد آزادی کو ایک آزاد و خود مختار مملکت کے قیام کی وہ منزل عطا کی کہ ایک غلام قوم معجزہ بپا کرنے کے قابل بن گئی، مسلمانان ہند کے دور غلامی میں اقبالؒ جیسے دانائے راز کی موجودگی خود ملت اسلامیہ کے امر اور آفاقی ہونے کی دلیل ہے کہ مختلف زمانوں اور ادوار میں یہ ملت زوال و پژمردگی کا شکار تو ہو سکتی ہے مگر یہ ممکن نہیں کہ اس کا باطن اتنا مردہ ہو جائے کہ وہ اپنی کوکھ سے ایک توانا اور بہتر مستقبل کی تخلیق ہی نہ کر سکے۔

اقبالؒ کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے فکری و تہذیبی محاذ پر دلیل کی قوت سے قوم کو تقویت دی، سیاسی میدان میں مخالفین کی تہ در تہ چالوں کو اس وقت طشت ازبام کیا جب بڑے بڑے مسلمان زعماء ان چالوں کو سمجھنے سے قاصر تھے اور اپنی شاعری کے ذریعے ایک دور نو کی تصور کشی کرتے ہوئے قوم میں روح عمل بھی پھونکی، اقبالؒ نے جب عملی سیاست میں قدم رکھا تو ان کی تمام کوششیں مسلمانان ہند کے مفادات کے تحفظ کیلئے یقین اور ان کی خداداد بصیرت کی آئینہ دار بھی تھیں۔

مثلاً 11 اکتوبر 1926ء کو ان کے ایک انتخابی جلسے کی تفصیل روزنامہ زمیندار میں شائع ہوئی، اس میں انہوں نے کہا: ’’میں نے مسلمانوں کو زندگی کے صحیح مفہوم سے آشنا کرنے، اسلاف کے نقش قدم پر چلانے اور نا امیدی بزدلی اور کم ہمتی سے باز رکھنے کیلئے نظم کا ذریعہ استعمال کیا، میں نے پچیس سال تک اپنے بھائیوں کی مقدور بھر ذہنی خدمت کی۔ اب ان کی بطرز خاص عملی خدمت کیلئے اپنے آپ کو پیش کر رہا ہوں اسلامیان ہند پر عجب دور گزر رہا ہے، 1929ء میں رائل کمیشن تحقیق کرے گا کہ آیا ہندوستان مزید رعایات و اصلاحات کا مستحق ہے یا نہیں، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں کبھی بھی اپنے مفاد کو قوم کے مصالح کے مقابلے میں ترجیح نہیں دوں گا‘‘۔

اقبالؒ نے مسلمانان ہند کے زوال اور نکبت پر شبانہ روز غور کیا، مسلمانان ہند کی نجات اور حقیقی آزادی کیلئے جو راستہ انہوں نے تجویز کیا وہ مشرق و مغرب یا کسی غیر تہذیب کے کسی اصول کی پیروی نہ تھا بلکہ مسلمانوں کے اپنے تہذیبی روایات کے تحفظ کا اصول تھا، 19نومبر 1926ء کو ایک اجتماع عام سے خطاب میں علامہ نے فرمایا: ’’مسلمانوں کی زندگی کا راز اتحاد میں مضمر ہے، میں نے برسوں مطالعہ کیا، راتیں غور و فکر میں گزاریں تاکہ وہ حقیقت معلوم کروں جس پر کار بند ہو کر عرب حضورﷺ سرور کائنات کی محبت میں تیس سال کے اندر اندر دنیا کے امام بن گئے۔

وہ حقیقت اتحاد و اتفاق ہے جو ہر شخص کے لبوں پر ہر وقت جاری رہتی ہے، کاش ہر مسلمان کے دل میں بیٹھ جائے، مسلمانانِ ہند کیلئے دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ وہ ہندوستان کی سیاسیات کے ساتھ گہری دل بستگی پیدا کریں، جو لوگ خود اخبار نہ پڑھ سکتے ہوں وہ دوسروں سے سنیں، اس وقت جو قوتیں دنیا میں کار فرما ہیں، ان میں سے اکثر اسلام کے خلاف کام کر رہی ہیں۔

علامہ اقبال خداداد بصیرت کی بنیاد پر ہمیشہ اس امر کے قائل رہے کہ ہندو کبھی بھی مسلمانان ہند کے مفادات کی حفاظت نہ کریں گے بلکہ ان کی زبان پر تو مسلمانوں کی دوستی کا نعرہ ہوگا مگر فی الاصل وہ مسلمانوں کو اپنا غلام بنانے اور رکھنے کی پالیسی اپنائیں گے، اسی وجہ سے انہوں نے تجاویز دہلی کی مخالفت کی، وہ مسلمانوں کیلئے جداگانہ انتخاب کے حق کو قائم رکھنے اور مخلوط و مشترک انتخاب کے خلاف اپنا موقف ہر موقع پر بیان کرتے رہے۔

یکم مئی 1927ء کو پنجاب مسلم لیگ کے برکت علی محمڈن ہال لاہور میں ہونے والے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اقبالؒ نے فرمایا: ’’مجھے یہ کہنے کا حق پہنچتا ہے کہ میں سب سے پہلا ہندوستانی ہوں جس نے اتحاد ہندو مسلم کی اہمیت و ضرورت کا احساس کیا اور میری ہمیشہ سے آرزو ہے کہ یہ اتحاد مستقل صورت اختیار کرے، لیکن حالات حلقہ ہائے انتخاب کے اشتراک کیلئے موزوں نہیں ہیں اور ہمارے صدر(سر محمد شفیع) نے ہندو رہنمائوں کی تقریروں کے جو اقتباسات اپنے خطبہ صدارت میں دیئے ہیں ان سے ہندوؤں کی افسوسناک ذہنیت آشکار ہوتی ہے۔

آخر میں میں مسلمانوں سے ایک ضروری بات کہنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں، ایک طرف ہندوؤں کی کوششیں ان کے خلاف ہو رہی ہیں دوسری طرف حکومت کے موجودہ نظام کی سرگرمیاں مسلمانوں کے خلاف جاری ہیں، ان مصیبتوں میں بچاؤ کی صورت محض یہ ہے کہ مسلمان اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں اور مردانہ وار ہر مصیبت کا مقابلہ کریں۔

اقبالؒ کو اس امر کا پختہ یقین تھا کہ مسلمانوں کی بقا صرف اور صرف اپنے الگ تشخص کے تحفظ میں ہے، جس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنا الگ اور آزاد سیاسی تشخص اور پروگرام طے کر کے اپنی جدوجہد آزادی کو آگے بڑھائیں، اگر اس دور کے حالات کو دیکھیں تو علامہ کی غیر معمولیت شخصیت نکھر کر سامنے آتی ہے، کیونکہ ان حالات میں اس طرح کا موقف علامہ جیسی مومنانہ یقین اور فراست کی حامل شخصیت ہی اختیار کر سکتی تھی۔

نہرو رپورٹ میں جب مسلمانوں کے مطالبات کو نظرانداز کر دیا گیا تو اس کے خلاف 29دسمبر 1928ء کو دہلی میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس منعقد کی گئی، اس کانفرنس میں جناح لیگ کے علاوہ تمام مسلم جماعتوں کے نمائندے شریک ہوئے، اجلاس میں نہرو رپورٹ کی مذمت کرتے ہوئے اس کے خلاف قرارداد پیش کی گئی، اس قرارداد کی حمایت میں تقریر میں علامہ نے فرمایا: ’’ میں اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہوں کہ آج سے نصف صدی قبل سر سید احمد خان مرحوم نے مسلمانوں کیلئے جو راہ عمل قائم کی تھی وہ صحیح تھی اور تلخ تجربوں کے بعد ہمیں اس راہ عمل کی اہمیت محسوس ہو رہی ہے۔

حضرات! آج میں نہایت صاف لفظوں میں کہنا چاہتا ہوں کہ ہم کو علیحدہ طور پر ایک پولیٹیکل پروگرام بنانے کی ضرورت ہے، آج اس کانفرنس میں متفقہ طور پر جو ریزولیوشن پیش ہوا ہے وہ نہایت صحیح ہے اور اس کی صحت کیلئے میرے پاس ایک مذہبی دلیل ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمارے آقائے نامدار حضور سرور عالمﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ میری امت کا اجتماع کبھی گمراہی پر نہ ہوگا۔

علامہ اقبالؒ کے ہندو قوم کے مسلمانوں کے بارے میں رویے کی تصدیق 1927ء کو ہونے والے فسادات نے بھی کر دی، غازی علم دین شہید کے واقعے نے علامہ کی سوچ اور فکر پر گہرے اثرات مرتب کئے، ان اثرات کا ذکر کرتے ہوئے علامہ نے مسلم آؤٹ لُک کو انٹرویو میں 23 مئی1927ء کو فرمایا: ’’ہمیں لاہور کے فسادات سے سبق حاصل کرنا چاہیے، واقعہ یہ ہے کہ اس حقیقت نے مجھے اپنے سیاسی خیالات اور سیاسی عقائد پر از سر نو غور کرنے پر مجبور کر دیا ہے، اب میں اس امر کا قائل ہوگیا ہوں کہ اس صوبے کے مسلمانوں کا اوّلین فرض یہ ہے کہ وہ اپنی داخلی تنظیم اور اصلاح کی طرف متوجہ ہوں۔

یعنی ہندوؤں کے مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے معاندانہ رویے کا نتیجہ تھا کہ 1930ء کے الہ آباد کے صدارتی خطبے میں علامہ اقبالؒ نے مسلمانوں کیلئے الگ وطن کا مطالبہ کیا، جو بتدریج تمام مسلمانان ہند کے دل کی آواز بن گیا اور ان کی سیاسی قیادت میں بھی اسے اپنی منزل بنا لیا، قائداعظمؒ نے اس کا اعتراف 16 مئی 1944ء کو انعام اللہ خان کے نام اپنے خط میں یوں کیا: ’’1929ء سے میرے اور سر محمد اقبالؒ کے نظریات میں ہم آہنگی پیدا ہوئی اور وہی ایک عظیم اور اہم مسلمان تھے جنہوں نے ہر مرحلے پر میری حوصلہ افزائی کی اور آخری دم تک میرے ساتھ مضبوطی سے کھڑے رہے‘‘۔

اقبالؒ کی بصیرت اور سیاسی موقف سے قائد اعظمؒ اور دوسری مسلمان سیاسی قیادت کی موافقت اور انہی خطوط پر اپنی جدوجہد کو آگے بڑھانے کا نتیجہ تھا کہ مسلمان سترہ سال کی قلیل مدت میں ایک آزاد مسلم ریاست کے حامل بن گئے۔

اقبال کی فکر انسانیت کا سرمایہ ہے، آج دنیا جس فکری افلاس، کشت و خون اور بحرانوں کا شکار ہے، اقبال کی فکر ہمیں اس معاشرے کے قیام میں رہنمائی فراہم کر سکتی ہے جو نفس انسانی کے احترام پر مبنی ہو۔

صفت برق چمکتا ہے مرا فکر بلند
کہ بھٹکے نہ پھریں ظمت شب میں راہی

ڈاکٹر طاہر حمید تنولی اقبالیات میں ڈاکٹریٹ اور اقبالیات پر کئی کتب کے مصنف ہیں، اقبال اکادمی میں شعبہ ادبیات کے سربراہ ہیں۔

 

Advertisement