لاہور: (ویب ڈیسک) جب پوری دنیا کو کورونا نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور ہر طرف کورونا کی خبریں سننے، پڑھنے اور دیکھنے کو مل رہی ہیں، کراچی سے بذریعہ رکشہ خیبرپختونخوا پہنچنے والے 4 دوستوں کی ویڈیو وائرل ہوگئی جس نے دیکھنے والوں پر حیرت کے پہاڑ توڑ دیئے۔
ذرا اندازہ تو کیجیے کراچی سے خیبرپختونخوا اور وہ بھی رکشے میں!۔ رکشے پر تقریباً 1700کلومیٹر طویل اور جوکھوں بھرے اس سفر کی جرأت کرنے والوں میں شریف زادہ ،بحرین، خورشید اورراحید اللہ نے بتایا کہ ہم چاروں دوست کراچی میں رکشہ چلا کر روزی کماتے ہیں۔
جب کچھ دن پہلے کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر شہرِ کراچی میں ہوٹل، کاروباری مراکز، دفاتر و دیگر مقامات کو بند کردیا گیا اور سڑکوں پر لوگوں کا رش خاصا کم ہونے لگا تو ان احتیاطی اقدامات کا خمیازہ ہمارے روزگار کو بھگتنا پڑا۔ پھر اوپر سے ہوٹلوں کے شٹر بند ہوئے تو روٹی کھانے کے بھی لالے پڑگئے ۔
بے روزگاری سے تنگ آکر ہم چاروں دوستوں نے اپنے آبائی گاؤں شانگلہ جانے کا فیصلہ کیا۔ بس سروس دستیاب نہ تھی، پھر مشاورت کے بعد ہم نے اپنی 3 پہیوں والی سواری پر اس طویل سفر کو کاٹنے کا فیصلہ کیا۔ 24 مارچ بروز منگل رات 10 بجے کراچی سے سفر شروع کیا اور 27 مارچ بروز جمعہ شب 11 بجے اپنی منزل مقصود یعنی ضلع شانگلہ کی یونین کونسل چوگا میں واقع اپنے گاؤں بینہ پہنچ گئے۔
شریف زادہ کہتے ہیں کہ سفر کے دوران چھوٹے موٹے حادثات و دلچسپ حالات کا سامنا ہوا۔ مظفرگڑھ کے قریب ایک بار کتوں کی جان بچانے کی کوشش میں رکشہ ہی الٹ گیا جس کی وجہ سے میرے ہاتھ اور پیروں پر کافی چوٹیں آئیں اور 3 دانت بھی ٹوٹ گئے ۔ ہوٹلوں کی بندش کی وجہ سے راستے میں کھانے پینے کی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پورے راستے پولیس، رینجرز اور پاک فوج کے جوانوں کا رویہ بہت ہی متاثرکن تھا اور انہوں نے ہمارے ساتھ ہر جگہ بھرپور تعاون کیا جس پر ہم ان کو سلام پیش کرتے ہیں ۔ پورے سفر میں 40 کلو گیس استعمال ہوئی۔راستے میں ایک جگہ ایک ٹائر پنکچر ہوگیا تھا۔
چاروں دوست باری باری رکشہ چلاتے رہے، ہم نے کہیں بھی قیام نہیں کیا اور مسلسل سفر جاری رکھا۔ راستوں کا علم نہیں تھا ۔ ہم تو بس نکل گئے ، پھر ہماری کچھ رہنمائی سائن بورڈز نے کی اور کچھ مدد گاؤں کے ایک مقامی نے کی جو کوچ ڈرائیور ہے ۔رمضان کا مہینہ گاؤں میں ہی گزاریں گے اور جب کاروبار دوبارہ کھل جائے گا تو رکشے کے ذریعے ہی کراچی واپس چلے جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ سکھرکے بعد ایک غلط موڑ لے لیا جس کے نتیجے میں ہم شاید کوئی 300 کلومیٹر اپنے اصل راستے کی مخالف سمت میں بڑھتے چلے گئے۔ ہم نے راستے میں صرف پنجاب میں رانی پوری کے مقام پر پیٹ بھر کے کھانا کھایا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 75 گھنٹے کے اس طویل سفر میں تھکاوٹ اور بے آرامی کا احساس طبیعت پر حاوی تو رہا لیکن ہم نڈھال نہیں ہوئے۔ چاروں دوستوں کے گاؤں پہنچنے کے بعد ان کی دعوتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا چونکہ ہمارا آبائی علاقہ ایک پہاڑی علاقہ ہے اور سفر کے دوران موسلادھار بارش کے باعث راستے کیچڑ زدہ ہوگئے تھے اس لیے رکشے میں 4 افراد کو بلندی پر لے جانے میں مشکل پیش آرہی تھی سو ہم جگہ جگہ رکشے سے اتر کر دھکا لگایا کرتے تھے۔