دنیا کے 43 ممالک، 50 ہزار کلو میٹر کا سفر کرنیوالا پاکستانی سائیکل سوار

Published On 09 October,2020 06:08 pm

لاہور: (ویب ڈیسک) دنیا بھر میں سیاحت کے شوقین افراد کی تعداد کروڑوں میں ہے جو اپنے خوابوں کو حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، ایسے ہی ایک پاکستانی شہری ہیں جنہوں نے اپنا جنون پورا کرنے کیلئے دنیا کے 43 ممالک میں 50 ہزار کلو میٹر کا سفر سائیکل پر کر کے سب کو حیران کر ڈالا۔

برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر لیہ سے تعلق رکھنے والے کامران ، جنہیں کامران آن بائیک‘ بھی کہا جاتا ہے، نے 9 برسوں میں پچاس ہزار کلو میٹر کا سفر طے کیا، مزیدسفر کے خواہشمند ہیں تاہم کورونا وائرس کی وجہ سے پاکستان میں رکے ہوئے ہیں اور ایک مرتبہ پھر سائیکل پر سفر کرنے کے لیے بیتاب ہیں۔

برطانوی خبر رساں ادارے کو اپنی روداد بتاتے ہوئے کامران کا کہنا تھا کہ فارغ میں اپنی یادگار لمحات پر مبنی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کرتا ہوں، بلاگ لکھتا ہوں۔ میرا تعلق غریب گھرانے سے تھا، والد صاحب کی پرانے ٹائروں کی دکان تھی، جہاں وہ پنکچر لگاتے تھے۔ آبائی شہر سے انٹر کیا، بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے کمپیوٹر سائنس میں بی ایس سی اور پھر ایم اسی سی کی، مزید تعلیم کیلئے جرمنی چلے گیا جہاں سے میں نے ماسٹرز اور پھر پی ایچ ڈی کی۔

اپنے بارے میں انہوں نے مزید بتایا کہ پہلی بار سفر 12 سال کی عمر میں کیا، یہ سفر سائیکل پر لیہ سے 26 کلو میٹر دور ایک چھوٹی سی جگہ چوک اعظم کا تھا، جہاں پر 12 ربیع الاوّل کا پروگرام ہو رہا تھا۔ اس سفر کے دوران کافی محظوظ ہوا، نہروں پر رکے، پھل توڑ کر کھائے، یہ لمحات میرے لیے عجیب سے تھے۔ پھر ایک مرتبہ گھر والوں سے چھپ کر 150 یا 160 کلو میٹر کا سفر کیا، یہ سفر لیہ سے ملتان کا تھا، ایک مرتبہ لیہ سے لاہور بھی گیا جس کے لیے مجھے 2 دن لگے۔

جرمنی میں تعلیم کے حوالے سے کامران کا کہنا تھا کہ بہت مشکل سے پیسے پکڑ کر جرمنی تعلیم حاصل کرنے لگا، جب پہلی بار جہاز پر بیٹھ کر ترکی کے اوپر سے گزر رہا تھا تو کھڑکی سے نیچے دیکھتے ہوئے مجھے ہر چیز دریا، ندیاں، سڑکیں ترچھی لائنوں کی طرح نظر آ رہی تھی۔ برلن میں تعلیم مکمل کی، اور نوکری کر کے اپنا قرض اُتارا اور پی ایچ ڈی مکمل کی۔

ایک بار میں اپنے گھر والوں کو جنون سے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ سائیکل پر جرمنی سے پاکستان آ رہا ہوں، جس پر والدین سخت غصہ ہوئے۔ تاہم والدہ کو بلیک میل کیا جس پر وہ مان گئیں۔ جرمنی سے پاکستان کا سفر شروع کیا تور پورا یورپ تو بس دیکھتے ہی دیکھتے گزر گیا۔ ایک دن میں سو کلو میٹر اور کبھی کبھی ایک روز میں 250 کلو میٹر کا سفر بھی طے ہو جاتا تھا تاہم استنبول پہنچا تو پتہ چلا والدہ کو ہارٹ اٹیک ہوا اور ہسپتال داخل ہیں جہاں پر میں فوراً جہاز پر بیٹھ کر پاکستان پہنچا۔ کچھ عرصے بعد والدہ کا انتقال ہو گیا۔ والدہ کے انتقال کے بعد ایک مرتبہ پھر جرمنی واپس چلا گیا۔ جہاں پر نوکری کے دوران خواب پورا کرنے کے لیے چھ ماہ کی چھٹیاں مانگیں تاہم کمپنی نے تین ماہ کی چھٹیاں دی گئیں، جس کے بعد فوراً فیصلہ کیا اور نوکری چھوڑ دی۔ جرمنی میں اپنا قیمتی سامان سمیت سب کچھ بیچ دیا اور خواب پورے کرنے کے لیے نکل پڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے دوبارہ سفر شروع کیا تو ایران براہ راست جانے کی بجائے سینٹرل ایشیا کے ممالک سے ہو کر پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔ وسطی ایشیا سے ہوتا ہوا خنجراب کے ذریعے پاکستان آیا، سفر کچھ اس طرح تھا کہ ایران سے ترکمانستان، ازبکستان، تاجکستان، کرغستان اور پھر چین اور وہاں سے خنجراب پاس کے ذریعے پاکستان پہنچا۔ جولائی 2015ء کو پاکستان میں داخل ہوا۔ خواب کو پورا کرنے کے لیے 13 سال انتظار کرنا پڑا۔

جب لوگ مجھ سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ کیا میں ایک کمپیوٹر انجینیئر ہوں، سیاح ہوں، سائیکلسٹ یا بلاگر تو میرا جواب یہ ہے کہ بُلا کی جانا میں کون؟ میں جس موڈ میں بیٹھا ہوتا ہوں وہی بن جاتا ہوں۔ جب کمپیوٹر کی فیلڈ کے لوگوں سے بات کر رہا ہوں تو کمپیوٹر انجینیئر، جب فوٹوگرافروں کے درمیان ہوں تو فوٹو گرافر اور سائکلسٹس کے درمیان ہوں تو سائیکلسٹ۔ تو اس طرح میں بھی گرگٹ کی طرح اپنے رنگ بدلتا رہتا ہوں۔ میں نے کبھی بھی اپنی کوئی فکسڈ شناخت نہیں رکھی، کیونکہ میرے خیال میں وہ آپ کا ایک فکسڈ مائنڈ سیٹ بنا دیتی ہے۔ میں نے تو اپنے انسٹا گرام پر بھی یہ لکھا ہے کہ ’2015 سے بیروز گار۔‘

سفر کے خرچ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ شروع شروع میں تو ساری بچت ہی اس پر لگاتا تھا۔ بارہ تیرہ سال جرمنی میں رہ کر جو بچت کی تھی اس سے پہلا سفر تو ہو گیا اور دوسرا بھی شروع ہو گیا لیکن بعد میں جب جنوبی امریکا کا سفر کیا تو سارے پیسے ختم ہو چکے تھے۔ یہ سفر ارجنٹینا سے شروع کیا اور خرچے پورے کرنے کے لیے مجھے اس دوران بہت ساری ’اوڈ جابز‘ بھی کرنا پڑیں۔ کبھی کبھار جریدے تصاویر خرید لیتے ہیں، کبھی آن لائن ڈالی ہوئی ٹی شرٹس بک جاتی ہیں، کبھی کبھار ٹریول یا بائسیکل میگزینز کو آرٹیکل لکھ دیتا ہوں۔

ان کا کہنا تھاکہ فری کھانے اور فری رہائش کے لیے سڑکوں پر مزدوری کی ہے۔ مثلاً ایک دفعہ یہ کہا گیا کہ اگر چار گھنٹے مزدوری کرو گے تو فری رہنے کو جگہ ملے گی، پلیٹیں دھوئی ہیں، ویٹر کی طرح کھانا سرو کیا ہے اور اس کے ساتھ کمپیوٹر سائنس کا کام بھی فری لانس کیا ہے۔ راہ چلتے چلتے رک کر گرافک ڈیزائننگ اور ویب سائٹ ڈیزائننگ بھی کی ہے۔ اور کیونکہ سفر کے دوران میں اپنی پوسٹ ڈالتا رہتا تھا اس لیے لوگوں کو بھی پتا چلنا شروع ہو گیا تھا اور کبھی کبھار لوگ چندہ بھی دے دیتے تھے۔ کسی نے 20 ڈالر بھیج دیے تو کسی نے پچاس۔

کامران کا کہنا تھا کہ جب جنوبی امریکا کا سفر ختم کر کے میں شمالی امریکہ کی جانب چلا تو مجھے وہاں پہنچنے کے لیے کشتی پر جانا تھا اور میرے پاس کشتی کے سفر تک کے پیسے نہیں تھے۔ وہاں میں نے کراؤڈ فنڈنگ شروع کی۔ میں نے اپنی فنڈنگ کیمپین میں لکھا کہ میں سفر کر رہا ہوں جس میں لکھ رہا ہوں، تصویریں بھیج رہا ہوں اور اگر آپ کو میرا یہ سفر پسند آتا ہے تو مجھے فنانس کریں تو اس سے بھی مجھے تھوڑے بہت پیسے آنا شروع ہو گئے۔ ان سفروں کی دلچسپ بات یہ بھی کہ کئی مرتبہ راستے میں اجنبی لوگوں نے کھڑے ہو کر بھی پیسے دے دیے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میری زندگی کے سب سے حسین ترین لمحات جنوبی امریکا میں گزرے، جہاں پر کئی بار لوگوں نے اپنے گھروں میں رکھا اور ایک مرتبہ ایک بزرگ نے خود کی جیب سے پیسے بھی دیئے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ایک دفعہ تو تاجکستان میں ایک خاندان نے جس کے پاس میں رکا تھا، مجھے کہا کہ میں ان کی لڑکی سے شادی کر لوں۔ ایک مرتبہ افغانستان اور تاجکستان کے درمیان وادئ وخان میں پنج دریا کے ساتھ جہاں دریا بہت سکڑ جاتا ہے، ایک لڑکے نے دریا کے پار سے دری زبان میں مجھے آواز دی کہ کیا تمہاری شادی ہوئی ہے۔ میں نے کہا نہیں۔ اس نے پاس کھڑی ایک لڑکی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ میری بہن ہے اس سے شادی کر لو۔

ان کا کہنا تھا کہ وہاں پورا خاندان یعنی ایک عورت، ایک بچہ، وہ لڑکی اور اس کا بھائی بھی موجود تھا۔ لیکن انھیں اس میں کچھ عجیب نہیں لگا۔ جب میں نے لڑکی کی طرف دیکھا تو اس نے دری میں مجھے کچھ کہا جس کا مطلب تھا ’آئی لو یو‘۔ میں تھوڑا حیران ہوا اور پھر میں نے بھی ہمت کر کے وہی جملہ دہرا دیا۔ بس بات یہی پر ہی ختم ہو گئی۔ اور میں دریا کے پار نہیں گیا اور نہ ہی وہ میری سوہنی بنی۔ ’آئی لو یو‘ کی آواز کئی دنوں تک ذہن میں گھونجتی رہی۔ ویسے میں نے تو سائیکل سے ہی شادی کر لی ہے۔
 

Advertisement