پہلی انسانی بستی کس ملک میں آباد ہوئی؟

Published On 26 November,2020 06:52 pm

لاہور: (سپیشل فیچر) سائنسدان اس امر پر تحقیق کر رہے ہیں کہ تخلیق حضرت آدمؑ کے بعد دنیا میں انسان نے پہلی جدید بستی کہاں آباد کی؟ اگرچہ بابل، مصر اور روم میں قدیم ترین تہذیبوں کی دریافت جاری ہے لیکن یہ بستیاں چند ہزار برس قدیم ہیں۔

سائنسدان لاکھوں سال پہلے کا سوچ رہے ہیں۔ اکثر سائنسدان متفق تھے کہ افریقہ ہی انسانوں کا اولین مسکن ہے۔ حضرت آدمؑ نے کس مقام پر قدم رنجا فرمایا؟ اس سے تو ہم بے خبر ہیں لیکن ابتدائی نسلوں کی آباد کاری کاعمل سب سے پہلے افریقہ میں شروع ہوا۔

ڈسکور میگزین میں لیوک ٹیلرک نے جدید انسانیت نے کہاں پرورش پائی؟ کے موضوع پر لکھا ہے کہ طویل عرصے سے ہم افریقہ کا نام ہی سن رہے ہیں ،لیکن اب ماہرین ان خطوں تک بھی پہنچ گئے ہیں جہاں دو لاکھ برس قبل اولین انسانوں نے سکونت اختیار کی تھی۔قبل ازیں کہا جاتا تھا کہ افریقہ سے ہی لوگ دنیا بھر میں منتقل ہوئے اور ان ہی لوگوں نے دنیا بھر کو آباد کیا۔مسلمان ان سے متفق نہ تھے ۔ اب سائنس دان مسلمانوں کے قریب تر پہنچ گئے ہیں ، جدید تحقیق میں اپنی ہی قدیم تحقیق کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے مان لیا ہے کہ دنیا بھر میں پائی جانے والی نسلیں شمالی افریقہ سے شروع نہیں ہوئیں بلکہ انسانیت نے بیک وقت کئی مقامات پر فروغ پانا شروع کیا۔

پانچ لاکھ برس قبل نیندر تھلز سے جدائی

قبل ازیں یہ تصور تھا کہ انگریزوں کے ہمارے آباء اجداد نیندر تھلز لگ بھگ پانچ لاکھ برس قبل ایک دوسرے سے الگ ہو کر مختلف مقامات پر آباد ہونا شروع ہوئے تھے۔ ان کی کوکھ سے جنم لینے والی بیشتر نسلوں کا نام و نشان بھی مٹ چکا ہے لیکن خال خال بستیاں مشرقی افریقی ممالک میں ان کی موجودگی کا پتہ دیتی ہیں ۔ بچے کھچے نیندر تھلز کی تعداد چند لاکھ سے زیادہ نہ ہو گی۔ جن کے جتھے شمالی افریقہ میں مقیم ہیں۔ 2003ء میں مشرقی ایتھوپیا کے پسماندہ گائوں میں ملنے والی 1.60لاکھ برس پرانی کھوپڑی سے انسانیت کی ترقی کے بارے میں کچھ معلومات ملیں۔یہ سر عام انسانوں سے کافی بڑا تھا،ماتھا چپٹا اور کھوپڑی کی ہڈی نسبتاََ کمزور یا پتلی تھی۔ دو سال بعد، 2005میں ایتھوپیا میں ہی   اومو کبیش ‘‘ (Omo-kabish) کے مقام پر دوران کھدائی دو کھوپڑیوں کی باقیات ملیں جن سے تحقیق کا دائرہ مزید 35ہزار برس پیچھے چلا گیا۔ جینیات ، تاریخ اور جغرافیہ کے ماہرین و سائنس دان متفق ہو گئے کہ شمالی افریقہ ہی ان کا مسکن رہا ہے۔ یہیں سے انسانیت کا سفر شروع ہوا تھا۔

پرانی تحقیق چیلنج ہو گئی

حال ہی میں دیگر دریافتوں نے ان پرانی سوچ کو چیلنج کر دیا ہے،نئی دریافتوں کا زمانہ بھی کم و بیش وہی ہے جو شمالی افریقہ سے ملنے والی باقیات کا ہے۔2017ء میں ژاں جیکوئس ہبلن (Jean Jacques Hublin) نے انسانیت کی کہانی کو نئے رخ پر موڑ دیا تھا۔انہوں نے شمالی ایتھوپیا سے انسانیت کو فروغ دینے کااعزاز چھین لیا ۔کئی عشروں پر محیط تحقیق کے بعد انہوں نے بتایا کہ    مراکش میں بھی قدیم ترین انسانوں کے آثار ملے ہیں ، عین ممکن ہے کہ مراکش اور ایتھوپیا میں بیک وقت انسانیت نے فروغ پایا ہو۔ کیونکہ دونوں کھوپڑیوں اور باقیات کا زمانہ کم و پیش ایک جیسا ہے۔مراکش ایتھوپیا کے شمال بعید میں واقع ہے، وہاں تک نقل مکانی ممکن نہ تھی۔غاروں میں 1.50لاکھ برس سے لے کر 2لاکھ برس قدیم انسانی باقیات پرانی تحقیقات سے کوئی میل نہیں کھاتیں۔ اس کہانی کے تانے بانے بننا قدرے مشکل ہے، یہ لوگ وہاں تک کیسے اور کب پہنچے ،اس سرے تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ آسان بات یہی لگتی ہے کہ مان لیا جائے کہ دونوں مقامات پر انسانیت نے بیک وقت فروغ حاصل کیا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ   یہ ماننا ہمارے لئے مشکل ہے کہ ایک ہی وقت میں دو مختلف دور افتادہ مقامات پر ایک جیسی نسلوں کو فروغ ملا۔یہ بات کچھ ہضم نہیں ہوتی‘‘۔ ہبلن کو بعد ازاں مراکش میں ہی مزید آثار بھی ملے۔ لگ بگ 3لاکھ برس قدیم۔ اسی سے وہ ساری تحقیق الٹ ثابت ہو ئی کہ ابتدائی نسلوں نے مشرقی افریقہ میں فروغ پایا۔ ڈی این اے سے معلوم ہوا کہ دونوں نسلوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے ،ان کی آپس میں رشتے داری ثابت نہیں ہوئی۔ ان دریافتوں نے پرانی تحقیق پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

انسان 60لاکھ برس قبل آبا واجداد سے بچھڑا

اب کہا جا رہاہے کہ انسان60لاکھ برس قبل اپنے آباء و اجداد سے بچھڑ گیا اور جگہ جگہ پھیل گیا۔ابتدائی ترین انسان کو H. sapiens کہا جاتا ہے،جدید انسانوں کے غول کے غول لگ بھگ 40ہزار برس قبل نیندر تھلز سے الگ ہوکر بیک وقت کئی مقامات پر پرورش پانے لگے ۔نئی دریافتوں سے انسانیت کے ارتقاء کا نظریہ بدل گیا ہے ۔ لیکن یہ لوگ افریقہ میں ہی گھومتے رہے ۔ شمالی افریقہ سے مراکش چلے گئے یا کسی افریقی ملک میں گھومتے رہے، افریقہ سے باہر نکلنے کے آثار نہیں ملے۔

تمام انسانوں کا رشتے دارکون؟

سڈنی یونیورسٹی آف آسٹریلیا کے میڈیکل سنٹر سے منسلک وینیسا ہئس (Vanessa Hayes) کی قیادت میں بھی ایک بڑا گروپ کئی برس سے انسانیت کی ابتدا ء کی کھوج میں ہے۔ کہاجاتا ہے کہ تمام سوالوں کاجواب ان کے پاس ہے ۔اس گروپ میں ڈی این اے، ماحولیات، اور کمپیوٹر کے ماہرین بھی شامل ہیں۔جب انہوںنے طاقت ور کمپیوٹروں کی مدد سے دور حاضر کے انسانوں کے ڈی این ایز کا تقابلی جائزہ قدیم ترین ڈی این ایز سے کرنا شروع کیاتویہ بات سامنے آئی کہ کئی گروپوں کا ایتھوپیا سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انہوں نے مختلف گروپوں کے 200افراد کے ڈی این ایز کا ایک ہزار افریقیوں کے ڈی این ایز سے تقابلی جائزہ لیا۔ ایتھوپیا اور دیگر ممالک کے ایک ہزار ڈی این ایز کا آپس میں تعلق نہیں ملا۔ پھر جب انہوں نے جنوبی افریقہ اور نمیبیا کی قدیم بولی   Khoisan‘ ‘ بولنے والوں کے ایک ہزار ڈی این ایز کاجنوبی افریقی ممالک کے قدیم ترین ڈی این ایز کی روشنی میں جائزہ لیا تو ان تمام کا آپس میں تعلق نکلا ۔جس پر انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ    جنوبی افریقہ میں رہنے والے لوگ تمام انسانوں کے رشتے دار ہیں‘‘۔

بوٹسوانہ، انسانیت کا قدیم ترین مرکز

محققین کا کہنا ہے کہ شمالی بوٹسوانہ میں واقع دریائے زمبیزی (Zambezi River) کا جنوبی حصہ کسی زمانے میں انتہائی زرخیز ہوا کرتاتھا، سرسبز و شاداب۔چاروں اطراف سے چشموں میں گھرا ہوا۔ اس میں مغرب کو اس کے سال کا جواب بھی مل گیا ہے کہ ان کے آباء اجداد کہاں سے آئے تھے ! بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے یونیورسٹی آف پنسلوینیا کی سارا تسکوف (Sarah Tiskoff) کا کہنا ہے کہ    لیکن ہم وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ آج سے 50 ہزار برس یہ لوگ کہاں تھے؟‘‘ ان کی تحقیق کا موضوع ہر دور میں ہونے والی ہجرت ہے ،یعنی انسان کب کہاں پہنچا ؟وہ یہی جاننا چاہتی ہیں ،اس کام میں ابھی برس ہا برس لگ سکتے ہیں۔

ٹورنٹو یونیورسٹی کی تحقیق

تورنٹو یونیورسٹی کی بینس ویلا (Bence Viola)نے مندرجہ بالا تحقیق سے قدرے اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ    یہ درست ہے کہ انسانیت کا ارتقاء بیک وقت کئی ممالک میں ہوا ہے ۔یعنی مغربی باشندے کسی ایک ملک کی نسل سے نہیں ہیں ،مختلف ممالک میں مختلف گروپ تھے، تاہم ان میں سے اکثر کا تعلق افریقہ کے جنوبی یا شمالی حصوں سے ہے۔ لیکن افریقہ کے کئی حصوں سے سراسر کوئی باقیات نہیں ملیں۔ خرا ب موس نے تمام باقیات برباد کر دیں۔

ہائی برڈ غیر ملکی

2018ء میں اس کا زمانہ 90ہزار برس قدیم ڈینی نامی ایک عورت کی باقیات کے جینیاتی تجزیے سے ماہرین نے اندازہ لگایا کہ وہ آدھی نیندر تھلز اور آدھی ڈینی سوان (Denisovan) تھی۔ 40ہزار برس پرانے ایک اور ڈھانچے سے بھی یہی نتیجہ نکالا گیا تھا۔نیندر تھلز کے جینز یورپ اور آسٹریلیا میں بھی پائے گئے ہیں۔

تحریر: محمد ندیم بھٹی
 

Advertisement