سرینگر: (ویب ڈیسک) مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے لاک ڈاؤن جاری ہے، وادی میں ادویات کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ سٹور مالکان دہائی دینے لگے ہیں کہ’’بیمار مت ہونا‘‘ کیونکہ دوائیاں ختم ہو گئی ہیں۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز مقبوضہ وادی میں جاری درد ناک کہانی منظر عام پر لایا ہے۔ ایک انٹرویو کے دوران میڈیکل سٹور مالکان سے نمائندے نے بات چیت کی تو سٹور مالک کا کہنا تھا کہ میں بے بس ہوں اور اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ’’بیمار مت ہونا‘‘ کیونکہ کرفیو کے باعث سٹاک ختم ہو گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کشمیر: مہلک ترین خاموشی سے گرج دار ترین آواز اٹھ رہی ہے
مسرور نذیر مقبوضہ کشمیر کے سب سے بڑے علاقے سرینگر میں رہتے ہیں اور ان کا وہاں میڈیکل سٹور ہے، جو کچھ عرصے سے چلا رہے ہیں، بارہ روز سے جاری لاک ڈاؤن کے بعد بے بس ہو گئے ہیں، کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ میرے سٹور پر تمام سٹاک ختم ہو گیا ہے، میں کسی کی مدد نہیں کر سکتا ہے اس لیے سب کو کہہ رہا ہوں کہ خدا کے لیے اپنا دھیان رکھیں اور بیمار مت ہوں، کیونکہ باہر سے دوائیوں کا سٹاک بھی نہیں آ رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شہر میں انٹرنیٹ بند ہے، ہم اپنے ہر کام کے لیے نیٹ استعمال کرتے ہیں، کئی بار دوسرے شہر میں سٹاک منگوانے کے لیے انٹرنیٹ کے ذریعے آن لائن آرڈر کرتے ہیں جس کی وجہ سے اب ہم کچھ نہیں کر سکتے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی عدالتیں مودی کے اشارے پر ناچنے لگیں، کشمیر پر فوری سماعت کی درخواست مسترد
دکاندار کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس زیادہ تر چیزیں بکتی ہیں ان میں انسولین اور بچوں کی خوراک شامل ہے جسے ہم آن لائن منگواتے ہیں، ہمارے پاس پیسے بھی نہیں ہیں، کیش ختم ہو گیا ہے، شہر میں بینک اور اے ٹی ایم بھی بند ہیں۔ ڈاکٹرز بھی اپنے مریضوں سے رابطہ نہیں کر پا رہے۔
نئی دہلی میں لیگل ایڈوکیسی گروپ کی بانی میشی چودھری کا کہنا ہے کہ پولیس سمجھتی ہے کہ غیر یقینی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے انٹرنیٹ بند کرنا بہترین آپشن ہے، کیونکہ اس سے خبریں پھیلتی ہیں جس سے وادی کی فضا میں خوف کا عنصر پروان چڑھتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ رواں سال جموں کشمیر جہاں زیادہ تر آبادی مسلمانوں کی ہے، اکثر اوقات بھارتی قابض فوج پر مقامی نوجوان حملے کرتے ہیں۔ اور اس کے بعد انٹرنیٹ کے ذریعے افواہیں پھیلاتے رہتے ہیں جس سے غیر یقینی کی فضا پیدا ہوتی ہے، اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ رواں سال کے آٹھ ماہ کے دوران بھارتی قابض فوج کی طرف 54 مرتبہ انٹرنیٹ کی سہولت بند کی گئی۔ انتظامیہ نے انٹر نیٹ کے ساتھ موبائل، لینڈ لائن سمیت دیگر سہولیات بھی بند کر رکھی ہیں۔
یاد رہے کہ انٹرنیٹ کی بندش کے باعث 2012ء سے 2017ء کے درمیان بھارتی معیشت کو 3 ارب ڈالرز (تقریباً پانچ سو ارب پاکستانی روپے) کا نقصان اُٹھانا پڑا تھا۔
کشمیری نوجوان عمر قیوم جو اپنا زیادہ تر وقت سرینگر میں گزارتے ہیں اور سوداگر ہیں۔ آن لائن طریقے کے ذریعے پیسے جمع کرواتے ہیں، اب وہ اپنے گھر پر نظر بند ہیں، ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے عزیزوں اور دوستوں کے ساتھ رابطہ نہیں کر پا رہا۔ جب سے وادی میں لاک ڈاؤن ہے، سمارٹ فون سمیت دیگر سہولتیں بند ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نہیں جانتا میں کب سو سکوں گا، کب جاگوں گا، اپنی زندگی کے ساتھ میں کیا کروں گا، میری زندگی انٹر نیٹ کے بغیر ادھوری ہے۔ وادی میں کرفیو کے باعث میں ایک جیل میں بند ہو کر رہ گیا ہوں۔
چیف ایگزیکٹو آف کشمیر کے بانی مہیت مہاراج کا کہنا ہے کہ میرا کام کپڑوں کی خریدو فروخت کا ہے جسے بعد میں آن لائن ای کامرس کے ذریعے فروخت کرتا ہوں، انٹرنیٹ کی بندوش کے باعث آرڈرز بھی نہیں دیکھ پا رہا، میری کمپنی میں کام کرنے والے 25 کے قریب ملازمین گھر پر بیٹھے ہیں، اگر اسی طرح کاروبار بند رہا تو میرے لیے بہت مسائل پیدا ہو جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب کی بار سب سے زیادہ مرتبہ لاک ڈاؤن ہوا ہے، میں نے اپنی زندگی میں 400 کے قریب لاک ڈاؤن دیکھے ہیں۔ آخری بار سب سے بڑا شٹ ڈاؤن 2016ء میں ہوا تھا، جب انٹرنیٹ 4 ماہ کے لیے بند رکھا گیا تھا۔ طالبعلموں، تاجروں، آن لائن یو ٹیوب، انسٹا گرام استعمال کرنے والوں کو بہت زیادہ دقت پیش آئی تھی۔
یاد رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے کوئی بڑا سٹینڈ نہیں لیا گیا اور درخواست مسترد کرتے ہوئے دو ہفتے کے لیے ٹال دی تھی۔