مقبوضہ کشمیر میں زندگی اور مو ت ساتھ ساتھ

Last Updated On 17 August,2019 08:59 am

سرینگر: (روزنامہ دنیا) عین اس وقت جب سرینگر میں ایک مریض محمد سکندر بھٹ آخری سانسیں لے رہا تھا تو دوسرا کشمیری شفیق احمد اپنی حاملہ بیوی کو ہسپتال پہنچانے کی جدوجہد کر رہا تھا، اس کوشش میں شفیق احمد کو ہائی وے پر 85 کلومیٹر کا طویل سفر ایسی صورت میں کرنا پڑا جبکہ راستے میں جگہ جگہ چیکنگ کیلئے چوکیوں کی بھول بھلیاں بنی ہوئی تھیں اور ہر چوکی پر بڑی تعداد میں فوجی اہلکار تعینات تھے۔ کرفیو کے باعث پوری وادی میں شہریوں کے درمیان رابطوں کو ناممکن بنا دیا گیا ہے، اسی لیے محمد سکندر بھٹ کو طبی امداد نہ مل سکی اور وہ اپنی تین بیٹیوں سے ملاقات کی خواہش دل میں لیے اس جہان فانی سے کوچ کرگیا۔

دوسری جانب شفیق احمد سخت ترین جدوجہد کے بعد اپنی حاملہ بیوی کو بچانے میں کامیاب رہا اور اس کی بیوی نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ دونوں خاندانوں کو جن پابندیوں اور کڑے مرحلوں سے گزرنا پڑا وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں جس کی آبادی 70 لاکھ ہے کیسی سخت پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں اور ان کڑی پابندیوں کی وجہ سے انسانی جانوں کو کس قدر خطرات کا سامنا ہے۔ ان پابندیوں کے عائد کیے جانے کے بعد پہلے پانچ روز تک سرینگر کی حالت ایک قلعے جیسی ہوگئی تھی، جہاں ہر چند قدم کے بعد فوجی اور نیم فوجی اہلکار تعینات تھے اور مرکزی سڑکوں کو خاردار تار لگاکر بند کر دیا گیا تھا، ہر اس شخص سے جو ان رکاوٹوں کو عبور کرنے کے ارادے سے یہاں آتا اسے سخت ترین پوچھ گچھ کا سامنا کرنا پڑتا۔
مرحوم سکندر بھسرٹ کے بیٹے نے بتایا کہ میرے والد جن کی عمر ستر سال سے زیادہ تھی کینسر کے مریض تھے، انہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی کیونکہ انہیں بھارتی حکام کی جانب سے اس بات پر باز پرس کا خطرہ تھا کہ انہوں نے اخباری نمائندے سے کیوں بات کی، انہوں نے بتایا کہ سات اگست کو دوپہر تقریباً دو بجے میرے علیل والد نے مجھے ہدایت کی کہ میں ان کی تینوں بیٹیوں کو لاکر ان سے ملوائوں، انہوں نے بتایا کہ میری بہنیں صرف دس منٹ کی مسافت پر رہتی ہیں لیکن اس روز رکاوٹوں کی وجہ سے مجھے وہاں پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگ گیا، جب میں تمام مشکلات کے باوجود تینوں بہنوں کو لے کر گھر پہنچا توافسوس میرے والد انتقال کرچکے تھے، اگر اس قدر پابندیاں عائد نہ ہوتیں تو ہم اپنے والد کی زندگی بچانے کیلئے کسی ڈاکٹر کو بلالیتے لیکن افسوس یہ پابندیاں رکاوٹ بن گئیں اور والد ہمیشہ کیلئے ساتھ چھوڑگئے، ہم ان کیلئے کچھ بھی نہ کرسکے، کاش ٹیلیفون ہی کھلا ہوتا تو ہم ڈاکٹر کو بلوالیتے۔

دوسری جانب بھارتی حکام کا موقف ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں سینکڑو ں رہنماؤں اور سیاسی کارکنوں کی گرفتاری کا مقصد بھارتی حکومت کی حالیہ کارروائی کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کو روکنا ہے۔ جنوبی کشمیر کے علاقے کوکرناگ کا شہری احمد اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ رہتا ہے، سات اگست کو اس کے علاقے پر بھی پابندیاں عائد کردی گئی تھیں، اس نے بتایا کہ میں اپنی بیوی کو چیک اپ کیلئے قریبی ہسپتال لے گیا، وہاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ میری بیوی کا بلڈ پریشر ٹھیک نہیں، آمدورفت میں رکاوٹوں کی وجہ سے اس ہسپتال میں عملہ نہیں اس لیے مریضہ کو پچیس کلومیٹر دور اننت ناگ کے ضلعی ہسپتال لے جانا ضروری ہے، ڈاکٹروں نے واضح کر دیا کہ اگر مریضہ کو کچھ ہوگیا تو وہ ٹیلیفون سروس بند ہونے کی وجہ سے کوئی مدد نہیں کر سکیں گے۔ احمد نے کہا کہ کوئی چارہ کار نہ ہونے کے باعث میں نے اپنی بیوی کو ایمبولینس میں لٹایا، میری بیٹی اور بیوی کی بہن بھی ساتھ تھیں، یہاں سے اننت ناگ کا سفر عام حالات میں صرف پینتالیس منٹ کا ہوتا ہے لیکن ہمیں آٹھ مقامات پر سکیورٹی اہلکاروں نے روک کر پوچھ گچھ کی اور ہم دو گھنٹے سے بھی زیادہ دیر بعد اننت ناگ کے ضلعی ہسپتال پہنچے، اس کے بعد یہاں کے ڈاکٹروں نے بھی کہا زچہ و بچہ کی صحت اور سلامتی کیلئے مریضہ کو سرینگر کے مرکزی میٹرنٹی ہسپتال لیجانا ضروری ہے۔ احمد نے بتایا کہ یہ ہسپتال یہاں سے ساٹھ کلومیٹر دور واقع ہے لیکن اس کے سو ا کوئی چارہ نہیں تھا، یہ عام طور پر ایک گھنٹے کی مسافت ہوتی ہے لیکن اس روز ہمیں دس چوکیوں پر تعینات اہلکاروں نے روکا اور ہم ڈھائی گھنٹے بعد سرینگر کے ہسپتال پہنچے جہاں میری بیوی نے بیٹے کو جنم دیا۔

احمد نے بتایا کہ اس دوران خاندان کے دیگر تمام افراد گھر میں پریشان بیٹھے رہے، چونکہ ٹیلیفون بند تھے اس لیے ہم انہیں یہ نہیں بتاسکتے تھے کہ ہم کہاں ہیں اور یہ کہ سب خیریت ہے۔ دوسری جانب مواصلاتی رابطے معطل ہونے کی وجہ سے سکندر بھٹ کے انتقال کی خبر ان کے اکثر عزیزوں اور متعلقہ لوگوں کو نہیں مل سکی تاہم تقریباً ایک سو افراد دریائے جہلم کے کنارے و اقع سرینگر کے قبرستان میں سکندر بھٹ کی تدفین کیلئے اکٹھے ہوگئے ، اس دوران ایک فوجی ہیلی کاپٹر مسلسل اس علاقے کے اوپر پرو از کرتا رہا جبکہ ایک قریبی پل پر تعینات سکیورٹی اہلکار مسلسل تدفین میں شریک لوگوں کی نگرانی کرتے رہے ، مرحوم کے بیٹے نے بتایا کہ میرے والد ایک مقبول شخصیت تھے ، عام حالات ہوتے تو ان کی تدفین میں ہزاروں افراد شریک ہوتے لیکن رابطے معطل ہونے کے باعث ہم اپنے عزیزوں کو بھی آگاہ نہیں کرسکے ، انہوں نے بتایا کہ مقبوضہ کشمیر میں اس وقت گنتی کے چند ہی اخبارشائع ہورہے ہیں، ان میں اشتہار دے کر ہی لوگوں کو کسی حد تک آگاہ کیا جاسکتا ہے ، سکندر بھٹ کے داماد نے بتایا کہ مرحوم کی بہن صرف دس کلومیٹر دور رہتی ہیں لیکن افسوس رکاوٹوں کی وجہ سے انہیں بتانا بھی ممکن نہیں ہوسکا۔