سرینگر: (ویب ڈیسک) متوقع سرد موسم بھارتی قابض فوج کیلئے درد سر بننے لگا، مقبوضہ وادی کی آئینی حیثیت کے خاتمے سے متعلق فیصلے پر عملدرآمد شروع کر دیا گیا ہے تاحال زندگی قید ہے۔ دکانیں بند اور سڑکیں تقریباً ویران ہیں۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی قابض حکومت کے متنازعہ فيصلے پر عملدرآمد شروع ہو گيا ہے جسکے تحت وادی کی خصوصی آئينی حيثيت ختم کردی گئی۔ مقبوضہ کشمیر کو اب دو مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے جن کا براہ راست انتظام وفاقی حکومت سنبھالے گی۔
یاد رہے کہ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمير کی خصوصی آئينی حيثيت کے خاتمے کا اعلان پانچ اگست کو کيا تھا۔ ساتھ ہی وہاں تعینات پوليس و فوجی دستوں کی بھارتی نفری میں مزید اضافہ کر دیا گیا اور مواصلات کے ذرائع بھی بند کر ديے گئے تھے۔ اقدام پر نہ صرف کشميری عوام بلکہ عالمی سطح پر کئی ممالک نے نئی دہلی حکومت کی مذمت کی۔ پاکستان کی جانب سے بھی عمل کی مذمت اب بھی جاری ہے۔
بھارتی فيصلے پر عملدرآمد بدھ 30 اکتوبر کی شب مقامی وقت کے مطابق بارہ بجے شروع ہوا۔ يوں مقبوضہ کشمير دو حصوں ميں تقسیم ہو گيا ہے۔ ایک کروڑ 22 لاکھ افراد پرمشتمل جموں و کشمیر کو ایک یونین جبکہ تین لاکھ نفوس کے حامل لداخ کو الگ یونین کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ ان دونوں کا انتظام نئی دہلی حکومت براہ راست سنبھالے گی۔ جس کے لیے گورنرز تعینات کر دیئے گئے ہیں۔ تعینات ہونے والوں میں گریش چندرمورمو اور رادھا کرشنا متھور شامل ہیں۔
نریندرمودی نے مقبوضہ جموں وکشمیرمیں گجرات کی طرزپر قتل وغارت گری کا منصوبہ شروع کرنے کی تیاری کرلی، مودی سرکار نے مقبوضہ جموں وکشمیر کا فرسٹ لیفٹیننٹ گورنر گریش چندرمورمو کو تعینات کیا ہے، 2002 میں گجرات کے اندرمسلم کش فسادات کے دوران گریش چندر اس وقت کے وزیراعلیٰ نریندرمودی کے پرنسپل سیکریٹری تھے۔
دوسری طرف مقبوضہ وادی میں بھارت کے متنازعہ اقدامات پر چین نے شدید تحفظات کا اظہارکیا ہے، ترجمان چینی وزارت خارجہ گینگ شوانگ کا کہنا ہے کہ کہ بھارت کے یکطرفہ اقدام کی شدید مذمت کرتے ہیں، مسئلہ کشمیرکا حل پرامن طریقے سے ہونا چاہیے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق 88روز گزرنے کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں زندگی قید ہے، نام نہاد بھارتی فيصلے پر عملدر آمد شروع ہونے کے موقع پر سرینگر ميں سڑکيں خالی دکھائی ديں۔ مقامی افراد نے احتجاجاً دکانيں بھی بند رکھی ہوئی ہيں۔ ہر طرف پوليس اور فوج کی بھاری نفری تعينات ہے تاہم سری نگر سے پتھراؤ کرنے کے 20 واقعات کی رپورٹيں موصول ہوئی ہيں۔
کشمير کی سابق وزير اعلی محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کو کشميريوں کے ساتھ تعلقات بڑھانے ہوں گے قبل اسکے کہ کشميری عوام خود کو مزيد تنہا محسوس کريں۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی قابض سرکار کی طرف سے مقبوضہ وادی میں لاکھوں کی تعداد میں جو فوجی تعینات کیے گئے ہیں ان کے بارے میں کوئی اطلاعات نہیں کہ وہ کب تک وادی میں موجود رہیں گے۔ میڈیا کی خبروں کے مطابق ایک حاضر سروس قابض بھارتی آٰفیسر کا کہنا ہے کہ میں نے قابض مودی سرکار سے پوچھا تھا کہ ہمارے اہلکار کتنے وقت تک یہاں موجود رہیں گے اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
بھارتی قابض اہلکار کا مزید کہنا تھ کہ اس دوران مجھے بتایا گیا کہ آئندہ سال اپریل تک کوئی بھی سوال نہ پوچھا جائے۔ اب ہمیں طویل سردیاں گزارنے کی تیاریاں کرنا ہونگی۔ قابض سکیورٹی اہلکاروں کو سرکاری بلڈنگ، سکولز، زیر تعمیر بلڈنگز، ویئر ہاؤسز اور گھروں کے باہر تعینات کیا گیا ہے۔
بھارتی اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ سردی کے موسم کے دوران یہاں پر ڈیوٹی دینا کافی مشکل ہو گا، کیونکہ یہ موسم ڈیوٹی کیلئے موزوں نہیں، کیونکہ سخت ترین سرد موسم نومبر سے شروع ہو گا، لہٰذا ہم مناسب رہائئش اور سردیوں کے لوازمات کی خریداری کیلئے تیاریاں کر رہے ہیں۔
قابض اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ آج سے پہلے ہمیں اس طرح کی چیزیں خریدنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی، ہم پہلی بار سردیوں کے لوازمات کی خریداری کرنے لگے ہیں، ہمارے اہلکاروں کے پاس جو کپڑے موجود ہیں وہ یہاں کے مقامی موسم کے لحاظ سے کارگر نہیں۔
دوسری طرف سینئر حریت رہنما سیّد علی گیلانی کا کہنا ہے کہ بھارت جتنی مرضی کوشش کر لے مقبوضہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو کبھی تبدیل نہیں کر سکتا۔
قابض بھارتی سرکار کی طرف مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے دو حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد عوام کے نام پیغام میں سینئر حریت رہنما کا کہنا تھا کہ بھارت زور و جبر سے کشمیریوں کے حقوق کا خاتمہ چاہتا ہے میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یہ بھارت کی خام خیالی ہے کہ اپنے دو کٹھ پتلی افسران تعینات کر کے ہم سے ہمارے حقوق چھین سکتا ہے۔
سیّد علی گیلانی کا مزید کہنا تھا کہ یہ وادی میں ’خوفناک‘ سی خاموشی ہے اس کے پیچھے بہت بڑا طوفان ہے، جو لاوا پک رہا ہے یہ کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ میں وطن کیلئے جانیں قربان کرنے والوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔ اس عظیم مقصد میں حصہ لینے والے نوجوان اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں انکشاف کیاگیا کہ 15لاکھ کشمیری بچے تاحال اسکولز سے باہر ہیں،بھارتی فوج کی موجودگی میں والدین اپنے بچوں کواسکولزبھیجتے ہوئے خوف محسوس کرتے ہیں۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق جنوبی کشمیر میں 11 ٹرک ڈرائیورز کی ہلاکتوں کے بعد ہزاروں کی تعداد میں مہاجر مزدور گزشتہ دو ہفتوں کے دوران مقبوضہ کشمیر سے واپس اپنے علاقوں کو جا چکے ہیں۔
حکام کے مطابق اکتوبر میں مقبوضہ وادی میں 50 ہزار کے قریب مزدور جن کا تعلق کشمیرسے نہیں ہے یہاں کام کرتے ہیں، دو ہفتے قبل راجستھان کے ٹرک ڈرائیور کی ہلاکت کے بعد یہ تعداد مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے، گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مزید پانچ ٹرک ڈرائیور کو بھارتی ایجنٹوں نے قتل کیا ہے جس کے باعث ہزاروں کی تعداد میں مزدور خوف و ہراس کے باعث واپس اپنے علاقوں کو چلے گئے ہیں۔
دوسری طرف بھارتی فوج کی طرف سے مزید ایک اور نام نہاد آپریشن کی تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔ اس آپریشن کا مقصد بڑی تعداد میں کریک ڈاؤن کرنا ہے، سب سے پہلے سرچ آپریشن کولگام اور کٹسور میں کیا جائے گا، قابض اہلکاروں کی طرف سے لاؤڈ سپیکر پر اعلان بھی کیا جا رہا ہے۔
اس سے قبل بھارتی قابض اہلکاروں کی طرف سے مختلف علاقوں میں متواتر سے نام نہاد آپریشن کے نام پر کریک ڈاؤن جاری ہے، جن علاقوں میں آپریشن کیا جا رہا ہے ان میں سرینگر، گندربل، کپواڑہ، بارہمولا، بانڈی پورہ، اسلام آباد، شوپیاں، پلوامہ، کولگام، رمبن، کشتواڑ، ڈوڈا اور راجوڑی کے اضلاع شامل ہیں۔