اسلام آباد: (دنیا نیوز) وفاقی حکومت آئندہ مالی سال کیلئے تقریباً8 ٹریلین روپے (8ہزار ارب روپے) کا نیا سالانہ بجٹ آج (جمعہ کو) پیش کر رہی ہے۔ وفاقی وزیرخزانہ ومحصولات شوکت ترین بجٹ پیش کریں گے۔سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں پندرہ فیصد اضافہ متوقع ہے۔
تفصیلات کے مطابق مالی سال 2021-22 کا وفاقی بجٹ جمعہ کو پیش ہو گا۔ بجٹ کا مجموعی 8000 ارب روپے، خسارہ 3050 ارب ر وپے ہوگا۔ ٹیکس آمدن کا ہدف 5820 ارب اور نان ٹیکس آمدن کا ہدف 1420 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 15 فیصد اضافہ متوقع ہے۔
دستاویز کے مطابق کابینہ ڈویژن کے لیے 33 ارب ،ایوی ایشن ڈویژن کیلئے 14 ارب ،وزارت تجارت کیلئے 17 ارب روپے ا ور وزرات مواصلات کے لیے 239 ارب مختص کیے جائیں گے۔
وزارت تعلیم و تربیت کے لیے 22 ارب روپے جبکہ وزارت خارجہ کے لئے 22 ارب 78 کروڑ روپے مختص کیے جانے کا امکان ہے۔ آئندہ مالی سال وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس کیلئے 14 ارب، صنعت و پیداوار کے لیے 7 ارب، وزارت اطلاعات کے لئے 11 ارب اور وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے لئے 14 ارب روپے رکھے جائیں گے۔
وزارت داخلہ کو 160 ارب روپے، وزارت امور کشمیر ،شمالی علاقہ جات و گلگت بلتستان کو 199 ارب، وزارت قانون کو 18 ارب جبکہ وزارت غذائی تحفظ کو29 ارب روپے ملیں گے۔
اجلاس سے قبل وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوگا جس میں بجلی مہنگی نہ کرنے، آٹا، گھی اور چینی پر 500 ارب روپے سے زائد کی سبسڈی دینے اور تنخواہوں اور پنشن میں اضافے سے متعلق حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
اس سے قبل وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے مالی سال 21-2020 کا قومی اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب معیشت کے استحکام کے بجائے نمو پر توجہ دینی ہے۔
اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مالی سال 2021 کا آغاز عالمی وبا کورونا وائرس کے دوران ہوا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس حکومت نے مؤثر پالیسی کی بدولت کووِڈ کے اثرات کو زائل کیا اور گزشتہ برس جولائی میں معاشی سرگرمیاں بحال ہونا شروع ہوگئیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے دور اندیش فیصلے کیے جس میں وزیراعظم کا اسمارٹ لاک ڈاؤن کا بڑا فیصلہ بھی شامل ہے اس کے علاوہ مانیٹری اور معاشی فیصلے ہوئے، اہم وزارتوں میں مراعات کے فیصلے کیے گئے جن میں تعمیرات کا شعبہ بھی شامل ہے اور وزیراعظم نے اس میں آئی ایم ایف سے خصوصی مراعات لیں۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ اس کے بعد تیزی سے ویکسینیشن کا سلسلہ شروع ہوا اور این سی او سی کا قیام اور ایک چھت تلے فیصلہ لینا بہت بڑا عمل تھا جس کی وجہ سے گزشتہ برس بھی کووِڈ پر قابو پایا گیا اور فروری مارچ میں تیسری لہر کے دوران بھی اسے کنٹرول کرلیا گیا۔
شوکت ترین نے بتایا کہ جب کووِڈ 19 شروع ہوا اس وقت تقریباً 5 کروڑ 60 لاکھ افراد برسرِ روزگار تھے جن کی تعداد گر کر 3 کروڑ 50 لاکھ پر آگئی یعنی 2 کروڑ لوگ بے روزگار ہوگئے۔
ان کا کہنا تھا کہ کووڈ سے متعلق وزیراعظم کی بڑی محتاط قسم کی پالیسیاں تھیں جس پر بہت سے ممالک نے عمل نہیں کیا بلکہ خود ہمارے ملک میں ابتدا میں اس پر شک و شبہ ظاہر کیا جاتا رہا۔
انہوں نے کہا کہ ان پالیسیوں کی بدولت اکتوبر 2020 میں برسر روزگار افراد کی تعداد دوبارہ تقریباً کروڑ 30 لاکھ ہوگئی اس کا مطلب ساڑھے 5 کروڑ میں سے 25 لاکھ کے قریب لوگ باقی رہ گئے اور معیشت بھی بحالی کی جانب گامزن ہونا شروع ہوگئی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ بجٹ میں حکومت کا اپنا اندازہ 2.1 فیصد شرح نمو کا تھا جبکہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کا تخمینہ تو اس سے بھی کم تھا لیکن حکومت نے جو فیصلے لیے، جن میں مینوفیکچرنگ، ٹیکسٹائل، زراعت اور تعمیراتی شعبے کو گیس، بجلی اور دیگر مد میں مراعات دی گئیں اور اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے کی مینوفیکچرنگ نے مثبت نمو کا مظاہرہ کیا جو تقریباً 9 فیصد تھی۔
سروے کے مطابق پاکستان میں مالی سال 21-2020 میں عبوری شرح نمو 3.94 فیصد رہی، جو مجموعی طور پر تمام شعبوں میں ریباؤنڈ کی بنیاد پر حاصل ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ زراعت نے 2.77 فیصد نمو کی حالانکہ کپاس خراب ہونے کی وجہ سے ہمیں نمو منفی ہونے کا اندیشہ تھا لیکن باقی 4 فصلوں، گندم، چاول، گنا اور مکئی نے بہتر کارکردگی دکھائی۔
صنعتی شعبے میں 3.6 فیصد اضافہ ہوا جبکہ خدمات میں 4.4 فیصد اضافہ ہوا حالانکہ اس کا ہدف 2.6 فیصد تھا۔ گزشتہ برس جب شرح نمو 0.4 فیصد تھی تو صنعت اور خدمات میں بالترتیب 2.6 اور 0.59 فیصد پر منفی تھی۔
شوکت ترین نے کہا کہ لارج اسکیل مینوفیکچرنگ (ایل ایس ایم) میں 9 فیصد اضافہ ہوا، جس سے مجموعی طور پر شرح نمو میں اضافے میں مدد ملی۔
انہوں نے کہا کہ ترسیلات زرِ نے ریکارڈ قائم کردیا اور اس وقت ترسیلات زر 26 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکی ہیں اور ہمارے اندازے کے مطابق 29 ارب ڈالر تک جائے گی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ معیشت نے نمو کرنا شروع کیا تو تیل کی قیمت بڑھی اور اشیائے خورونوش کی درآمد میں اضافہ ہوا، ہم نے گندم اور چینی درآمد کی اور جو پاکستان، اشیائے خورونوش برآمد کرنے والا تھا وہ درآمد کنندہ بن گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ترسیلات زرِ میں اضافہ سمندر پار پاکستانیوں کا وزیراعظم عمران خان سے خصوصی تعلق کو ظاہر کرتا ہے، عالمی بینک اور متعدد تحقیقات میں خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ کووِڈ بحران کے باعث ترسیلات زر میں کمی آئے گی لیکن اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ اس وقت 29 فیصد سے بڑھ رہی ہیں جو ریکارڈ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ترسیلات زر کو اللہ نے ہمارے لیے فرشتہ بنا کر بھیج دیا کیوں کہ ہمارے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے لیے یہ انتہائی اہم تھا جس سے ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ گزشتہ 10 ماہ سے سرپلس ہے۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں ایک ارب ڈالر سے زیادہ رقم آچکی ہے جبکہ اسٹیٹ بینک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر جو 19-2018 میں 7 ارب ڈالر پر چلے گئے تھے اب 16 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں جو 4 سال کی بلند ترین سطح ہے۔
شوکت ترین نے کہا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے حوالے سے اچھی کارکردگی ہے اور ہمارا خیال ہے کہ آئندہ جائزاتی اجلاس میں ہمیں ریلیف مل جائے گا، میں اس وقت یہ پیش گوئی نہیں کرسکتا کہ ہم گرے سے وائٹ لسٹ پر آجائیں گے لیکن ان کی کمیٹیوں سے ملنے والا فیڈ بیک خاصہ تسلی بخش ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ٹیکس کلیکشن بھی بہت بہتر ہے اور 11 ماہ کے دوران ہم 42 کھرب روپے تک پہنچ گئے ہیں جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 18 فیصد سے زائد ہے حالانکہ مالی سال کے آغاز میں کسی کو اتنا بہتر ہونے کا اندازہ نہیں تھا۔
انہوں نے بتایا کہ مارچ کے بعد سے ماہانہ بنیاد پر ٹیکس کلیکشن کی نمو 50 سے 60 فیصد زیادہ ہے اس لیے ہمارا اندازہ ہے کہ ہم 47 کھرب روپے کے تخمینے سے بھی آگے نکل جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اسی اندازے کی بنیاد پر اگلے سال کے بجٹ میں یہ تخمینہ 58 کھرب روپے رکھا ہے، پرائمری بیلنس کو سرپلس میں لے کر چلے گئے ہیں جو 12 سال میں پہلی مرتبہ ہوا۔
سروے کے مطابق مالی سال 2021 کے دوران جب دنیا کو کووڈ کے باعث معاشی مشکلات کا سامنا تھا تو پاکستان کی بیرونی ترسیلات زر نے مزاحمت دکھائی۔
انہوں نے کہا کہ جولائی سے مارچ میں مالی سال 2021 کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ 95 کروڑ 90 لاکھ ڈالر (جی ڈی پی کا 0.5 فیصد) سرپلس تھا جس کے مقابلے میں گزشتہ برس خسارہ 4 ہزار 141 ملین ڈالر تھا جو جی ڈی پی کا 2.1 فیصد تھا۔ کرنٹ اکاؤنٹ کے توازن میں بہتری کے لیے بنیادی کردار بیرونی ترسیلات میں بے پناہ اضافہ تھا۔
اس حوالے سے مزید کہا کہ انفلو میں سالانہ اضافہ اس دورانیے میں 26.2 فیصد تھا جبکہ اسی دوران گزشتہ سال کم تھی اور عام توقعات بھی کمی کی تھیں۔
سروے میں کہا گیا کہ مالی سال 2021 میں جولائی سے مارچ کے دوران مصنوعات کی برآمدات میں 2.3 فیصد سے 18.7 ارب ڈالر اضافہ ہوا جو ایک سال قبل اسی دوران 18.3 ارب ڈالر تھیں۔
مصنوعات کی درآمدات 9.4 فیصد 37.4 ارب ڈالر اضافہ ہوا جو گزشتہ برس 34.2 فیصد تھی، جس کے نتیجے میں تجارتی خسارہ 17.7 فیصد 18.7 ارب ڈالر تھا جبکہ ایک سال قبل 15.9 ارب ڈالر تھا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ مہنگائی کی بات ہوتی ہے لیکن ہم خالصتاً اشیائے خورونوش درآمد کرنے والا ملک بن گئے ہیں ہم گندم، چینی، دالیں، گھی درآمد کررہے ہیں جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر قیمتوں میں آنے والے اتار چڑھاؤ سے متاثر ہیں اس سے بچ نہیں سکتے۔
وزیر خزانہ کے مطابق گزشتہ 12 ماہ کے دوران چینی کی عالمی قیمتیں 58 فیصد بڑھیں جبکہ ہمارے ہاں چینی کی قیمت 19 فیصد بڑھی، پام آئل کی قیمت میں 102 فیصد، سویابین کی قیمت میں 119 فیصد ہوا جبکہ ہمارے ہاں پام آئل کی قیمت میں صرف 20 فیصد اضافہ ہوا۔
انہوں نے کہا خام تیل کی قیمت میں 119 فیصد اضافہ ہوا جس کے اثرات ہم نے عوام تک پہنچنے نہیں دیے اور گزشتہ سوا ماہ سے بالکل بھی تیل کی قیمت میں اضافہ نہیں کیا جارہا، مجموعی طور پر ہمارے ہاں تیل کی قیمت میں 32 فیصد اضافہ ہوا یعنی 86 فیصد ہم نے جذب کرلیا۔
وزیر خزانہ کے مطابق عالمی منڈی میں گندم کی قیمت میں 29 فیصد اضافہ ہوا تو ہمیں بھی 29 فیصد ہی بڑھانی پڑی اس میں فرق نہیں ہے البتہ چائے کی قیمت 8 فیصد بڑھی لیکن ہم نے کوئی اضافہ نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم قیمتیں کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن یہ ابھی بھی زیادہ ہیں جس کا اثر عام آدمی پر پڑ رہا ہے اور اس کا حل اپنی زرعی پیداوار میں اضافہ کرنا ہے جس پر بجٹ میں بہت زور دیا گیا ہے اور ہماری کوشش ہے کہ ہم دوبارہ نیٹ ایکسپورٹر بنیں کیوں کہ اپنی پیداوار کی قیمتیں ہم کنٹرول کرسکتے ہیں۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہول سیل مارکیٹ میں لوگ بہت زیادہ مارجن بنا رہے ہیں جسے ہم ختم کرنا چاہتے ہیں ہم زرعی شعبے اشیائے خورونوش کے گودام اور کولڈ اسٹوریج لارہے ہیں جس سے آڑھتیوں سے جان چھوٹے گی اور ہم 4 سے 5 اہم چیزوں، گندم، چینی، دالیں میں اسٹریٹجک ریزرو بنا رہے ہیں تا کہ ذخیرہ اندوزی نہ ہوسکے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ہماری اسٹاک مارکیٹ ایشیا میں سب سے بہترین ہے، شرح سود میں اضافہ، ایکسچینج ریٹ بڑھنے سے قرضوں کی ادائیگیاں 15 سو ارب سے بڑھ کر 3 ہزار ارب روپے تک جا پہنچیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ مارچ کے اختتام تک ہمارا مجموعی قرض 380 کھرب روپے تھا جس میں سے ڈھائی سو کھرب مقامی قرض جبکہ تقریباً 120 کھرب غیر ملکی قرض ہے جس میں گزشتہ برس کے مقابلے صرف تقریباً 17 کھرب روپے کا اضافہ ہوا ہے جبکہ اس سے پہلے والے سال میں یہ اضافہ 36 کھرب روپے تھا۔
انہوں نے بتایا کہ اس دفعہ قرضوں میں اضافہ گزشتہ برس کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہے، گزشتہ برس کے مقابلے میں غیر ملکی قرض 7 کھرب روپے کم ہے اور یہ جون 2020 میں 131 کھرب روپے تھا جو 125 کھرب روپے پر آگیا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ قرض مجبوری ہے مالی خسارہ زیادہ ہوگا تو کہیں سے تو ریفنڈ کرنا ہے یا تو ریونیو بڑھ جائے اور یہ عارضی بھی تھا کیوں کہ ایک وقت میں شرح سود 13.25 فیصد تک جا پہنچی تھی جو واپس 7 فیصد پر آنے سے اس میں استحکام آتا جارہا ہے۔ پاکستان بین الاقوامی مارکیٹ میں گیا تو 5 ارب 30 کروڑ روپے کی ڈیمانڈ تھی جس پر ڈھائی ارب ڈالر لیے گئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صنعتوں میں سستے ٹیرف کے ذریعے بجلی کی کھپت بڑھانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں 26 فیصد اضافہ ہوا، سیلولر فونز 18 کروڑ 20 لاکھ ہوگئے ہیں جبکہ براڈ بینڈ کے تقریبا 10 کروڑ سبسکرائبر ہوگئے ہیں۔ احساس پروگرام کو ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے ایک کروڑ 50 لاکھ گھرانوں تک پہنچایا اور اس میں ایمرجنسی کیش اور دیگر مراعات دی گئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح وزیراعظم نے کامیاب جواب پروگرام کا اجرا کیا جس سے ساڑھے 8 سے 9 ہزار افراد مستفید ہوچکے ہیں، بلین ٹری سونامی کے تحت ایک ارب درخت لگائے جاچکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ریٹنگ اداروں موڈیز، فچ وغیرہ نے ہماری کریڈٹ ریٹنگ بہتر کی یہ اس بات کی سند ہے کہ ہمارا استحکام کا پروگرام کامیاب ہوا اور اب ہمیں پائیدار معاشی نمو کی جانب جانا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کب تک ہم معیشت مستحکم کرنے میں لگے رہیں گے معیشت کا پہیہ تیز چلا کر جب شرح نمو 7 سے 8 فیصد پر لے جائیں گے اسی وقت نوجوان نسل کو درکار روزگار فراہم کرسکیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ اس مرتبہ بجٹ میں سب سے بڑی چیز یہ ہوگی کہ ہم نے غریب کا خیال رکھنا ہے، استحکام کے دوران اور 74 سال سے غریب پس رہا ہے جسے ہم خواب دکھاتے رہے ہیں کہ اوپر سے معیشت ترقی کرے گی تو اس کے اثرات نیچے آئیں گے حالانکہ یہ اس وقت ہوسکتا ہے جب نمو پائیدار اور 20 سے 30 سال تک مسلسل ہو جیسے چین، بھارت اور ترکی میں ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ جو ممالک پائیدار ترقی کرتے ہیں انہوں نے ہی 20 سے 30 سال تک مستحکم نمو کی ہے جبکہ ہماری نمو پیسے ادھار لے کر، کریڈٹ کی بنیاد پر ہوتی ہے اور 4 سے 5 سال بعد ہم دوبارہ وہیں کھڑے ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سے غریب شخص کے لیے گھر، کاروبار، صحت سہولیات، اسکل ڈیولپمنٹ صرف خواب ہی رہ جاتا ہے لیکن اس مرتبہ آپ بجٹ میں دیکھیں گے کہ ہم نے اس پر توجہ دی ہے، جو پہلے اس لیے نہیں ہوا کہ انہیں طریقہ نہیں آتا تھا لیکن ہم اب طریقہ سکھائیں گے۔
وزیرخزانہ نے کہا کہ ہمارے کمرشل بینکوں کو نچلے طبقے کو قرض دینا آتا ہی نہیں لیکن ہم بجٹ میں بتائیں گے 40 سے 60 لاکھ غریب گھرانوں کے خواب کو کس طرح پورا کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت شرح نمو 4 فیصد پہنچنے میں بڑے پیمانے کی مینوفیکچرنگ کا حصہ 9 فیصد ہے لیکن چھوٹی اور متوسط صنعتوں (ایس ایم ایز) پر توجہ دی جائے گی جو 60 سے 80 لاکھ ہیں لیکن بینکنگ سیکٹر میں ان کا قرض محض ایک لاکھ 80 ہزار ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ 75 فیصد کریڈٹ کارپوریٹ سیکٹر لے جائے اور ایس ایم ایز کو صرف 6 فیصد ملے جسے ہم نے بہتر کرنا ہے ساتھ ہی بڑے پیمانے کی مینوفیکچرنگ کو ٹھیک کرنے کے علاوہ برآمدات بہتر بنانی ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ اس مرتبہ ہم اپنا پیراڈئم تبدیل کردینا ہے اور وزارت خزانہ یا ایف بی آر کے بجائے وزارت تجارت بتائے گی کہ کس صنعت کو کتنی مراعات دی جائیں گی۔ اس وقت انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ 40 سے 50 فیصد نمو کررہا ہے جسے ہم آئندہ برس 100 فیصد تک پہنچانا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں مراعات دی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ سال 2000 میں بھارت کی آئی ٹی ایکسپورٹ ایک ارب ڈالر تھی جو 2010 تک 100 ارب ڈالر پر پہنچ گئی تھی یعنی 10 سال میں 100 گنا بڑھی تو کیا ہم 40 سے 50 فیصد نہیں بڑھا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں برآمدات میں اضافہ کرنا ہے کیوں کہ جب بھی درآمدات بڑھتی ہے تو اس سے ڈالر ختم ہوجاتے ہیں اس لیے ہمیں ایکسپورٹ، ایف ڈی آئی میں اضافہ کرنا ہے اپنے پاس ڈالر کا انفلو بڑھانا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ہاؤسنگ سیکٹر نے گزشتہ برس ساڑھے 8 فیصد ترقی کی جس میں اضافے کی گنجائش ہے اور ہم اس میں نمو چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ توانائی ہمارے لیے بہت بڑا بلیک ہول ہے، گنجائش میں ضرورت سے زیادہ اضافہ کردیا گیا اور اس کی ادائیگیاں اب ہمیں کرنی پڑ رہی ہیں کیوں کہ جتنی گنجائش ہم پیدا کرچکے ہیں تو آئندہ 5 سے 6 برسوں میں 7 سے 8 فیصد نمو کرنے پر بھی مشکل سے ہی استعمال ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے بجلی کے نرخ بڑھانے پر اصرار کیا گیا لیکن وزیراعظم نے بڑھانے سے انکار کردیا اس لیے ہماری کوشش ہے کہ اس میں جدت لائیں جس سے نرخ بھی نہ بڑھیں اور گردشی قرض بھی ختم ہوجائے۔
شوکت ترین نے کہا کہ رواں برس کے وسط میں ساڑھے 4 سو ارب روپے کا گردشی قرض آنا تھا جو 2 سے ڈھائی سو ارب کے درمیان رہا اور ہم چاہتے ہیں کہ یہ صفر اور بتدریج کم ہونا شروع ہوجائے۔ توانائی کا شعبہ ہمارے لیے چیلنج ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ اس چیلنج پر پورا اتریں۔
پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے حوالے سے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ سی پیک کے تحت انفرا اسٹرکچر بنایا گیا ہے اور خصوصی اقتصادی زونز بھی قائم کیے جاچکے ہیں لیکن گزشتہ 6، 7 برسوں سے ہم سے کوتاہی ہوئی کہ ہمیں یہاں سرمایہ کار لے کر آنے چاہیے تھے، ہم چاہیں گے کہ وہ سی پیک استعمال کریں۔
انہوں نے کہا کہ چین آئندہ 10 برسوں میں 8 کروڑ 50 لاکھ روز گار دیگر ممالک کو دے رہا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں بھی حصہ ملے، اس لیے ہم انہیں کہہ رہے ہیں کہ آپ بتائیں ان اکنامک زونز میں آپ کو کیا مراعات چاہیے ہم دینے کو تیار ہیں آپ یہاں مینوفیکچرنگ کے لیے سرمایہ کاروں کو لائیں، کیوں کہ ہمیں سرمایہ کاری اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے ڈالر بھی کمانے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ریاستی ملکیت کے اداروں پر پیسہ ضائع ہونے کی بات ہوتی ہے تو 30 سال سے نجکاری کی باتیں ہورہی ہیں لیکن نجکاری نہیں ہوئی کیوں کہ جب سیاسی جماعتوں اور وزارتوں کے ہاتھ میں اداروں کا اختیار آجاتا ہے تو انہیں اسے اپنے پاس ہی رکھنا اچھا لگتا ہے لیکن یہ ہمارے لیے ٹھیک نہیں ہے۔
انہوں مزید کہا کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں، پی آئی اے، ریلویز سب خسارے میں ہیں اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ نجکاری کمیشن میں پروفیشنلز کا بورڈ بنائیں گے اور 15 اداروں کو وزارت سے نکال کر ان کے ماتحت کردیں گے جو انہیں اہداف دیں گے اور 26 فیصد فروخت کردیں گے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ بات کی جاتی ہے بینکوں کی نجکاری ہوگئی لیکن بینکنگ کیا کررہی ہے بینکنگ فٹ پرنٹ مجموعی ملکی پیداوار کا صرف 33 فیصد ہے جو دنیا کی کم ترین شرح میں سے ایک ہے بنگلہ دیش کی جی ڈی پی میں بینکنگ کی شرح 50 فیصد، کوریا کی 180 فیصد، چین کی 225 فیصد ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری صرف 33 فیصد ہے اور اس میں بھی اے ڈی آر 50 فیصد سے کم ہے اس کا مطلب یہ کہ 16 فیصد فارمل بینکنگ جی ڈی پی کو سپورٹ کرتی ہے جسے ٹھیک کرنا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک کے 9 شہر بینکنگ کا 85 فیصد کریڈٹ لے جاتے ہیں باقیوں کا کیا قصور ہے اسے ٹھیک کرنا ہے، ریجنل بینکس، ریجنل ہاؤسنگ بینکس بنانے ہیں جس کے فنانشل سیکٹر کی ری اسٹرکچرنگ کرنے پڑے گی۔