اسلام آباد: (دنیا نیوز) پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کیلئے تحریک انصاف کی درخواست پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا جو آج سنایا جائے گا۔
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی، عدالت عظمیٰ نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جو آج سنایا جائے گا۔
وکیل علی ظفر نے اپنے حتمی دلائل میں کہا کہ کے پی کے میں گورنر نے الیکشن کی تاریخ دینی ہے، کیا الیکشن کمیشن گورنر کی تاریخ بدل سکتا ہے؟ میری نظر میں الیکشن کمیشن آئین سے بالاتر اقدامات نہیں کرسکتا، بلدیاتی انتخابات میں الیکشن کمیشن تاریخ مقرر کرتا ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نے سارا ملبہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر ڈالا ہے، الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا وسائل مل جائیں تو الیکشن کیلئے تیار ہیں، سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری پوری کرنے کو تیار ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ایسے حالات بھی ہو سکتے ہیں جب انتخابات ملتوی ہو سکیں، وفاقی حکومت نے ایسا کوئی مواد نہیں دیا جس پر الیکشن ملتوی ہو سکیں، انتخابات کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے بھی آگاہ نہیں کیا گیا، عدالت نے توازن قائم کرنا ہوتا ہے، حکومت اور دیگر فریقین کی درست معاونت نہیں ملی۔
یہ بھی پڑھیں: الیکشن التواء معاملہ: 3 رکنی بنچ کیس نہ سنے، اٹارنی جنرل نے درخواست دائر کر دی
چیف جسٹس نے مزید کہا ہے کہ حکومت نے الیکشن کروانے کی آمادگی ہی نہیں ظاہر کی، ماضی میں عدالت اسمبلی کی تحلیل کالعدم قرار دے چکی ہے، ماضی میں حالات مختلف تھے، ملک میں کوئی سیاسی مذاکرات نہیں ہو رہے، رکاوٹوں سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی تھی، وزارت دفاع اور وزارت خزانہ کی وجوہات بھی دیکھیں گے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ترقیاتی بجٹ کی کافی رقم خرچ ہو چکی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ کو اس حوالے سے وضاحت دینا ہو گی، عوام کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے، الیکشن میں بدمزگی ہوئی تو ملبہ عدالت پر آئے گا، سیاسی مذاکرات کا آپشن اسی لیے دیا گیا تھا، آئین واضح ہے کہ الیکشن کب ہونے ہیں، مذاکرات کی آپشن کا کوئی جواب نہیں آیا۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ لوگ کہتے ہیں وہ آئین سے بالاتر ہیں اور من پسند ججز سے فیصلہ کرانا چاہتے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کسی نے ایسا نہیں کیا، چیف جسٹس نے کہا عدالت نے 6 ججز والی بات سنی لیکن اس پر ردعمل نہیں دیں گے، پارلیمنٹ اور حکومت کا احترام کرتے ہیں، بحران آئے تو سیاسی حل نکالا جاتا ہے۔
اس سے قبل سپریم کورٹ نے دن ساڑھے 11 بجے صوبوں میں انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کا آغاز کیا تو وفاقی حکومت نے اپنا موقف تحریری طور پر سپریم کورٹ میں جمع کرواتے ہوئے موجودہ بنچ پر اعتراض عائد کر دیا اور پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کی۔
حکومت نے موقف اختیار کیا کہ یکم مارچ کا سپریم کورٹ کا فیصلہ اکثریت سے دیا گیا، تین رکنی بینچ متبادل کے طور پر تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت نہ کرے، جسٹس قاضی فائز عیسی کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی درخواست مؤخر کی جائے، سپریم کورٹ کے جو ججز الیکشن کیس کو سن چکے ہیں انہیں نکال کر باقی ججز پر مشتمل بنچ بنایا جائے۔
حکومت نے مزید کہا کہ پہلے راؤنڈ میں دیا گیا الیکشن کا فیصلہ چار تین کی اکثریت سے دیا گیا، جسٹس اعجاز الاحسن پہلے راؤنڈ میں کیس سننے سے انکار کرچکے ہیں، چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر فیصلہ دینے والے بنچ کا حصہ تھے، چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر بھی اس کیس کو نہ سنیں۔
ہم نے بائیکاٹ نہیں کیا: پی پی پی
سماعت شروع ہوئی تو پی پی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم کارروائی کا حصہ بننا چاہتے ہیں، ہم نے تو بائیکاٹ کیا ہی نہیں تھا ، ہماری درخواستوں کے قابل سماعت ہونے اور بنچ کے دائرہ اختیار پر تحفظات ہیں۔
بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں
چیف جسٹس نے کہا کہ اخبار میں تو کچھ اور لکھا تھا، اگر بائیکاٹ کرنا ہے تو عدالتی کارروائی کا حصہ نہ بنیں، بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں۔
حکومتی اتحاد کے اعلامیے میں استعمال کی گئی زبان
جسٹس منیب نے ریمارکس دئیے کہ آپ ایک طرف بنچ پر اعتراض کرتے ہیں دوسری طرف کارروائی کا حصہ بھی بنتے ہیں، حکومتی اتحاد کے اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنائیں، جو زبان اس میں استعمال کی گئی ہے، گزشتہ 48 گھنٹے سے میڈیا کہہ رہا ہے کہ اعلامیے کے مطابق سیاسی جماعتیں بنچ پر عدم اعتماد کر رہی ہیں، ہم پر اعتماد نہیں ہے تو دلائل کیسے دے سکتے ہیں، اگر اعلامیہ واپس لیا ہے تو آپ کو سن لیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کو کیا ہدایت ملی ہیں، حکومت عدالت کا بائیکاٹ نہیں کرسکتی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حکومت بائیکاٹ نہیں کرسکتی، حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے۔
قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ سوال اٹھایا تھا کہ الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے؟ قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے، 1988 میں بھی عدالت کے حکم پر انتخابات آگے بڑھائے گئے تھے، عدالت زمینی حقائق کا جائزہ لے کر حکم جاری کرتی ہے، جس حکم نامے کا ذکر کر رہے ہیں اس پر عمل ہو چکا ہے۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دئیے کہ پہلے راؤنڈ میں 9 رکنی بنچ نے مقدمہ سنا تھا، 21 فروری کو سماعت کا حکم نامہ آیا، 2 ججز کے اختلافات کی تفصیلات سامنے آ چکی ہیں، 2 ججز نے پہلے دن درخواستیں خارج کر دی تھیں۔
جب بنچ دوبارہ تشکیل ہوا تو 5 رکنی تھا
عدالت نے ریمارکس دئیے کہ جسٹس منصور اور جسٹس جمال مندوخیل کے تفصیلی نوٹ کتنے رکنی بنچ کے تھے؟ 27 فروری کو 9 رکنی بنچ نے ازسرنو تشکیل کیلئے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا تھا، جب بنچ دوبارہ تشکیل ہوا تو پانچ رکنی تھا، کیا چیف جسٹس کوئی بھی پانچ ججز شامل نہیں کرسکتے تھے ؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آپ کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 4/3 کے فیصلے والی منطق مان لی تو معاملہ اس 9 رکنی بنچ کے پاس جائے گا، فیصلہ یا 9 رکنی بنچ کا ہوگا یا 5 رکنی بنچ کا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 9 رکنی بنچ کے فیصلے میں کہیں نہیں لکھا کون رضاکارانہ الگ ہورہا ہے، کسی نے بنچ سے الگ ہونا ہو تو جوڈیشل آرڈر لکھا جاتا ہے، عدالت بنچ کی ازسرنو تشکیل کا حکم دے تو اسے نکالنا نہیں کہتے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے خود کہا وہ اپنی شمولیت چیف جسٹس پر چھوڑتے ہیں، بنچ کا کوئی رکن بھی نہ ہو تو سماعت نہیں ہو سکتی، پانچ رکنی بنچ نے دو دن کیس سنا، کسی نے کہا دو ارکان موجود نہیں، کیا کسی نے یہ کہا کہ بنچ سات رکنی ہے؟ پہلی سماعت پر کوئی جج درخواست خارج کردے پھر بنچ میں نہ بیٹھے تو فیصلہ نیا بنچ کرے گا؟۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دو ججز کی رائے کے بعد نیا بنچ بنا اور ازسرِنو سماعت ہوئی، بنچ ارکان نے دونوں ججز کے رکن ہونے کا نقطہ نہیں اٹھایا، زیر حاشیہ میں بھی لکھا ہے کہ دو ججز کی آراء ریکارڈ کا حصہ ہیں فیصلے کا نہیں، ریکارڈ میں تو متفرق درخواستیں اور حکمنامے بھی شامل ہوئے ہیں، ابھی تک آپ ہمیں اس نقطے پر قائل نہیں کرسکے۔
حل کیا ہے؟
اٹارنی جنرل نے دلیل دی کہ دو ججز نے جو رائے دی تھی اسے الگ نہیں کیا جاسکتا، مسئلہ یہ ہے کہ اکثریت میں رائے کس کی ہے، حل یہ ہے کہ جنہوں نے پہلے مقدمہ سنا وہ اب بنچ سے الگ ہوجائیں۔
جسٹس فائز کا فیصلہ
اٹارنی جنرل نے جسٹس فائز والے فیصلے کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے 29 مئی کے فیصلے کے بعد رجسٹرار آفس نے ایک سرکلر جاری کیا، عدالتی حکم یا فیصلے کو انتظامی سرکلر سے ختم نہیں کیا جا سکتا، عدالتی حکم نظر ثانی یا کالعدم ہونے پر ہی ختم ہو سکتا۔
سرکلر سے فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا
چیف جسٹس نے وضاحت کی کہ سرکلر سے کسی فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا، فیصلے میں انتظامی ہدایات دی گئی تھیں، 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکنے کے معاملے پر سرکلر آیا ہے، جس میں لکھا ہے کہ پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی تھی، مقدمات سماعت کیلئے مقرر نہ کرنے کے انتظامی حکم پر سرکلر آیا ہے، جسٹس فائز عیسی کے فیصلے میں کوئی واضح حکم نہیں دیا گیا۔
فیصلے میں ہدایت نہیں بلکہ خواہش ظاہر کی گئی ہے
چیف جسٹس نے قاضی فائز کے فیصلے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ فیصلے میں لکھا ہے کہ مناسب ہوگا کہ 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکی جائے، 29 مارچ کے فیصلہ میں ہدایت نہیں بلکہ خواہش ظاہر کی گئی ہے، عوام کے مفادات میں مقدمات پر فیصلے ہونا ہیں ناں کہ سماعت موخر کرنے سے، فیصلے میں تیسری کیٹیگری بنیادی حقوق کی ہے، بنیادی حقوق تو 184/3 کے ہر مقدمے میں ہوتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ عدالتی فیصلے کو پھر بھی سرکلر کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا، موجودہ مقدمہ میں بنیادی حقوق کا ذکر ہے، موجودہ کیس تیسری کیٹگری میں آ سکتا ہے، رولز بننے تک سماعت موخر کی جائے۔
آپ کا مؤقف مان لیں تو فل کورٹ بھی سماعت نہیں کرسکتا
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے رواں سال پہلا سوموٹو نوٹس لیا تھا، دو اسمبلیوں کے سپیکرز کی درخواستیں آئی تھیں، ازخود نوٹس لینے میں ہمیشہ بہت احتیاط کی ہے، اس بات سے متفق نہیں کہ یہ مقدمہ دیگر 184/3 کے مقدمات سے مختلف ہے، جن کے رولز بنے ہیں ان مقدمات پر کیسے کارروائی روک دیں؟۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک جانب کہتے ہیں فل کورٹ بنائیں ساتھ کہتے ہیں سماعت نہ کریں، پہلے طے تو کر لیں سماعت ہو سکتی ہے یا نہیں، آپ کا مؤقف مان لیں تو فل کورٹ بھی سماعت نہیں کرسکتا۔
لارجر بنچ
چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فیصلے پر دستخط کرنے والے جج نے خود کو بنچ سے الگ کر لیا، کیسے ہو سکتا ہے فیصلہ لکھنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مقدمہ سنیں؟ آپ نے معاملہ فہم ہوتے ہوئے دوبارہ فل کورٹ کی استدعا نہیں کی، آپ کی زیادہ سے زیادہ استدعا لارجر بنچ کی ہوسکتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ لارجر بنچ کی استدعا آگے جا کر کروں گا۔
تین دن سینئر ججز سے ملاقاتیں کی ہیں
چیف جسٹس نے کہا کہ کسی جج کو بنچ سے نکالا گیا نہ کوئی رضا کارانہ الگ ہوا، 9 ارکان نے چیف جسٹس کو معاملہ بھجوایا، 27 فروری کے 9 ججز کے حکم نامے سے دکھائیں بنچ سے کون الگ ہوا؟ عدالتی ریکارڈ کے مطابق کسی جج نے سماعت سے معذرت نہیں کی، فل کورٹ میٹنگ فائدہ مند ہو سکتی ہے لیکن فل بنچ نہیں، گزشتہ تین دن میں سینئر ججز سے ملاقاتیں کی ہیں۔
کن ججز کا بنچ بنایا جائے
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو ججز 9 رکنی بنچ کا حصہ نہیں تھے ان پر مشتمل بنچ بنایا جائے، 3/2 اور 3/4 کا فیصلہ باقی دو ججز کو کرنے دیا جائے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ ایک فیصلہ تین رکنی اکثریت نے دیا ایک دو رکنی اقلیت نے، نظرثانی اکثریتی فیصلے کی ہوتی ہے، جن ججز کے نوٹ کا حوالہ دے رہے ہیں کیا وہ 5 رکنی بنچ میں تھے؟
ان کیمرا سماعت
اٹارنی جنرل نے درخواست کی کہ حساس معاملہ ہے، سکیورٹی معاملات پر ان کیمرا سماعت کی جائے۔
فوج مصروف ہے تو نیوی اور ایئر فورس سے مدد لی جاسکتی ہے
چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی حساس چیز سامنے آئی تو چیمبر میں سن لیں گے، فورسز کا معاملہ صرف آرمی کا نہیں بلکہ نیوی اور ایئر فورس کا بھی ہے، برّی فوج مصروف ہے تو نیوی اور ایئر فورس سے مدد لی جاسکتی ہے، ویسے فوج میں ہر یونٹ یا شعبہ جنگ کیلئے نہیں ہوتا، کوئی آ کر کہے تو صحیح کہ کتنے سکیورٹی اہلکاروں کی ضرورت ہے۔
سیکرٹری دفاع سے تحریری رپورٹ طلب
سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمود الزمان عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے کہا کہ پنجاب میں سکیورٹی حالات سنگین ہیں، ریزور فورس موجود ہے جسے مخصوص حالات میں بلایا جاتا ہے، ریزرو فورس کی طلبی کیلئے وقت درکار ہوتا ہے۔
عدالت نے سیکرٹری دفاع سے کل تک تحریری رپورٹ طلب کر لی۔
الیکشن ڈیوٹی کیلئے کمبیٹ اہلکاروں کی ضرورت نہیں
چیف جسٹس نے کہا کہ سربمہر لفافوں میں رپورٹ فراہم کریں، جائزہ لے کر مواد واپس کر دیں گے، سوال یہ ہے کہ 8 اکتوبر کو کیسے سب ٹھیک ہو جائے گا؟ کیا الیکشن کمیشن کو combat والے اہلکار درکار ہیں؟، الیکشن ڈیوٹی کیلئے کمبیٹ اہلکاروں کی ضرورت نہیں ہوتی، الیکشن کل نہیں ہونے پورا شیڈول آئیگا۔
ریٹائرڈ لوگوں کی خدمات
عمران خان کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ سکیورٹی اہلکار صرف ایک دن کے لئے چاہئیں، سکیورٹی کا ایشو تو ہمیشہ رہے گا، جبکہ آئینی ضرورت نوے دن کی ہے، ریٹائرڈ لوگوں کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
سیکرٹری خزانہ کی رپورٹ عدالت میں پیش کر دی گئی، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکرٹری خزانہ کی رپورٹ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے تناظر میں ہے۔
صرف 20 ارب روپے
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کے لئے 20 ارب چاہئیں، کون سا ترقیاتی منصوبہ 20 ارب روپے سے کم ہے؟ درخواست گزار کے مطابق ارکان کو 170 ارب روپے کا فنڈ دیا جا رہا ہے۔
کھربوں کے بجٹ سے 20 ارب روپے نکالنا ممکن نہیں
جسٹس منیب نے کہا کہ کیا کھربوں روپے کے بجٹ سے 20 ارب روپے نکالنا ممکن نہیں ؟ وزیر خزانہ کا بیان تھا کہ فروری میں 500 ارب روپے سے زائد کا ٹیکس جمع ہوا۔
ججز کی تنخواہیں کم کریں
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پٹرولیم مصنوعات پر حکومت کا خسارہ 157ارب روپے تھا، خسارہ 177 ارب ہو جاتا تو کیا ہو جاتا، کیا تنخواہوں میں کمی نہیں کی جا سکتی؟ ججز سے تنخواہیں کم کرنا کیوں شروع نہیں کرتے، قانونی رکاوٹ ہے تو عدالت ختم کر دے گی، پانچ فیصد تنخواہ تین اقسام میں کاٹی جا سکتی ہے، الیکشن کمیشن کو بھی اخراجات کم کرنے کا کہیں گے، کونسا مالی امور کا ماہر عدالت کو بریف کرے گا۔
اسد عمر کی بریفنگ
اسد عمر روسٹرم پر آگئے اور بریفنگ دی کہ پہلے پانچ ماہ میں 5700 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں، ٹوٹل بجٹ 9500 ارب روپے ہے، آئی ایم ایف خسارے کا ٹارگٹ جی ڈی پی کے حساب سے طے کرتا ہے، 20 ارب روپے بجٹ کا 0.02 فیصد سے زیادہ نہیں ہے، 20 ارب کا خسارے کے ٹارگٹ سے کوئی تعلق نہیں، ترقیاتی اخراجات 700 ارب روپے ہیں، ابھی تک 450 ارب روپے خرچ ہونا باقی ہیں، حکومت نے 8 ماہ میں صرف 200 ارب روپے خرچ کئے، کیسے ممکن ہے 700 ارب کے بجٹ سے 21 ارب روپے نہ نکالے جاسکتے ہوں، آئینی تقاضا اہم ہے یا سڑکیں بنانا؟ اس سے بڑا کوئی مذاق نہیں ہو سکتا۔
حکومت ہچکچاہٹ
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت ہچکچاہٹ کا شکار ہے، حکومت نے کہا کسی سے بات نہیں کریں گے عدالت فیصلہ کرے، ترقیاتی اخراجات کم نہیں کرنے توغیر ترقیاتی اخراجات کم کر دیں۔
ہمیشہ مالی مشکلات پر الیکشن نہیں ہوں گے
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہ مثال بن گئی تو ہمیشہ مالی مشکلات پر الیکشن نہیں ہوا کریں گے۔