لندن: (ویب ڈیسک) دنیا بھر میں جعلی خبریں ایک عفریت بنی ہوئی ہیں تاہم حالیہ ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یوٹیوب نے بروقت کارروائی کر لی ہے اور جعلی ویڈیو کی عفریت پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے تاہم فیس بک اس وقت جعلی ویڈیو پھیلانے والا سب سے بڑا ذریعہ بنا ہوا ہے۔
تفصیلات کے مطابق جب بات ہوتی ہے کورونا وائرس سے جنم لینے والی وبا کووڈ 19 کی تو اس بارے میں حقائق جاننے کے لیے بھی ہمیں خبروں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ بالخصوص اس وقت معلومات کے حصول کے لیے میڈیا کی ضرورت زیادہ محسوس ہوتی ہے، جب ہمارا کوئی قریبی رشتہ دار یا دوست اس وبا کا شکار نہیں ہوا ہے، کیونکہ اس صورت میں ہم اس تکلیف اور تجربے کو ذاتی طور پر سمجھنے کے قابل ہی نہیں ہو سکتے۔
خبروں سے ہی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس عالمی وبا کی وجہ سے کتنے افراد متاثر یا ہلاک ہوئے، یہ کس قدر موزی ہے اور اس کے معیشت پر کيا اثرات پڑ رہے ہیں اور یہ کہ کتنے لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف ہم گھروں میں قید ہیں اور تصاویر اور ویڈیوز میں بیابان سڑکوں اور مارکٹیوں کے امیجز دیکھ رہے ہیں۔ کبھی کبھار خریداری کی غرض سے باہر جاتے ہوئے ہمیں اس صورتحال کا صرف حسیاتی تجزبہ ہی ہو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پشتو گلوکارہ گل پانڑا کے قتل کی خبریں جعلی قرار
اس صورتحال میں نیوز ادارے ایک مرتبہ پھر ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ صرف اسی لیے نہیں کہ یہ نشریاتی ادارے ہمیں مطلع کر رہے ہیں کہ حکومتی پالیسیاں کیا ہیں اور ہمیں صورتحال میں کیسے ردعمل ظاہر کرنا چاہیے بلکہ خبروں کی طرف متوجہ ہونے کی دیگر کئی وجوہات بھی ہیں۔
میڈیا اداروں سے رجوع کرنے والے افراد کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے۔ آن لائن صارفین میں بھی ریکارڈ اضافہ دیکھا جا رہا ہے جبکہ ٹیلی وژن دیکھنے والوں کی شرح بھی بڑھی ہے۔ سوال پھر وہی ہے کہ کیا ہمیں قابل بھروسہ معلومات موصول ہو رہی ہیں؟
دوسری طرف سوشل میڈیا جعلی خبروں میں ڈوب چکا ہے۔ صرف اس بارے میں ہی ہزاروں آرٹیکلز اور ویڈیوز موجود ہیں کہ لہسن کس طرح کورونا وائرس کا شافی علاج ممکن بنا سکتا ہے۔ یہ پلیٹ فارمز حقیقی طور پر جھوٹی خبریں و معلومات پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اور یہ بات لوگوں کی زندگی کو خطرات میں ڈال سکتی ہے۔
آکسفورڈ انسٹیٹیوٹ اور رائٹرز انسٹیٹیوٹ کے ساتھ ہونے والی مشترکہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یوٹیوب نے بروقت کارروائی کر لی ہے اور جعلی ویڈیو کی عفریت پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے تاہم فیس بک اس وقت جعلی ویڈیو پھیلانے والا سب سے بڑا ذریعہ بنا ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’غلط معلومات‘ کا الزام، فیس بک و انسٹاگرام کے بائیکاٹ کی مہم شروع
تحقیق کے مطابق یوٹیوب نے زبردست انداز میں جعلی خبروں کو روکنے کے لیے کردار ادا کیا ہے، کوئی بھی شخص یوٹیوب پر کورونا وائرس سے متعلق کوئی ویڈیو دیکھنا چاہے تو اسے قابل اعتبار ویڈیو دیکھنے کو ملتی ہے۔
برطانوی تحقیق کے مطابق اس وقت سب سے بڑا فیک ویڈیوز کی بھرپور تاحال سوشل میڈیا پر موجود ہے، اس کا سب سے بڑا مرکز فیس بک ہے، جہاں یہ ویڈیو تیزی سے وائرل ہوتی ہیں، یوٹیوب پر موجود ویڈیوز (جو بعد میں ڈیلیٹ کر دی گئی تھیں) گزشتہ سال اکتوبر 2019ء سے لیکر رواں سال جون 2020ء تک فیس بک پر دو کروڑ سے زائد مرتبہ شیئرز کی گئی۔ ان ویڈیوز کو 1100 سے زائد مرتبہ لائیک بھی کیا گیا جبکہ کمنٹس اور شیئر بھی کیا گیا۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جعلی ویڈیو پھیلانے سے متعلق 250 فیس بک گروپ ذمہ دار ہیں، ان میں گلوکار اور مذہبی تنظیمیں شامل ہیں۔ کیونکہ ایسی ویڈیوز لوگوں کے روّیوں میں تبدیلی لاتی ہیں، سب سے زیادہ اثر لوگوں کی صحت اور ان کے اندازِ بیان پر بھی ہوتا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے فیس بک کے ترجمان کا کہنا تھا کہ فیس بک کبھی بھی کسی کو اجازت نہیں دیتی کہ جعلی خبریں اور ویڈیوز شیئرز کی جائیں، ہم نے کورونا وائرس سے متعلق تین ماہ (اپریل سے جون) کے دوران 70 لاکھ مواد اپنی ویب سائٹ سے ہٹایا جبکہ آگاہی مہم بھی چلائی، جو کوئی شخص جعلی خبر پھیلاتا اور لائیک کرتا تو کمپنی اسے وارننگ کا نوٹیفکیشن بھی بھیجتی۔
یوٹیوب کے ترجمان کا کہنا تھ اکہ ہم نے لوگوں کی صحت سے متعلق حقائق سامنے آنے کے بعد جعلی ویڈیوز پر کافی کام کیا ہے اور مزید کر رہے ہیں۔ کورونا وائرس سے متعلق لوگوں کو آگاہی مہم بھی دے رہے ہیں، نظر میں آنے والا مواد فوری طور پر ہٹا دیا جاتا ہے۔