کئی انتخابی نشان زندگی بھر کیلئے امیدوار کی تضحیک کا باعث بن جاتے ہیں
لاہور: (دنیا الیکشن سیل) انتخابی مہم میں انتخابی نشان کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ انتخابی نشان کسی پارٹی یا امیدوار کو کامیابی کا سہرا پہنانے یا شکست سے ہمکنار کروانے میں مرکزی کردارادا کرتا ہے۔ ایک طرف اسے اپنی مشہوری کیلئے استعمال کیا جاتا ہے تو دوسری طرف مخالف امیدوارکی طرف سےاسی نشان کو تمسخراڑانے یا تنقید کا نشانہ بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جنرل الیکشن 2018 کیلئے انتخابی نشانات کی فہرست جاری کر دی ہے۔ اس فہرست میں کل 331 انتخابی نشانات ہیں جن میں سے 110 انتخابی نشانات الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ 110 انتخابی جماعتوں کو الاٹ کیے جائیں گے۔ جبکہ آزاد امیدواران کو بقیہ 221 نشانات میں سے الاٹ کیے جائیں گے۔ ان میں کچھ نشانات ایسے بھی ہیں جو علاقائی ثقافت کے حوالے سے ناپسندیدہ قرار دیئے جا رہے ہیں اور امیدوار کے لئے تضحیک کا باعث بننے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔
پاکستان جہاں اکثریتی ووٹرز دیہی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور شرح خواندگی انتہائی کم یا پھر نہ ہونے کے برابر ہے۔ آزاد امیدواروں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں انتخابی نشان عام فہم اور وہاں کی ثقافت کے مطابق ہونے چاہیں۔ 2018 کے عام انتخابات میں پہلی بار حروف تہجی کو بھی انتخاباتی نشانات کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ انگریزی کے حروف A، B، G ،K ،P اور S بھی عام انتخابی نشان کے طور پر استعمال ہوں گے۔ نشانات الاٹ ہونے کے منتظر امیدواروں کا موقف ہے کہ کیا ایک امیدوار اپنے اَن پڑھ ووٹرز کو اِن نشانات سے روشناس کروا سکیں گے؟
الیکشن کے دوران افراتفری کے عالم میں ووٹرز کو اپنے من پسند امیدوار کے نشان کو پہچاننے اور مہرلگانے میں دشواری پیش آ سکتی ہے۔ آزاد امید واروں کی حتی المکان یہ کوشش رہتی ہے کہ انھیں الاٹ کیے گئے نشانات انتہائی سادہ، عام فہم اور قابل شناخت ہوں بصورت دیگر انتخابی نشان ووٹرز کیلئے مشکلات کے ساتھ الیکشن مہم کو چلانے میں بھی تنگی کا باعث بنتے ہیں۔
انتخابی نشانات میں سبزیاں بھی شامل کی گئی ہیں، ان میں ایسی سبزیاں بھی شامل ہیں جن کا تذکرہ اکثر علاقوں میں تمسخر بنانے کے لئے کیا جاتا ہے ۔ بینگن اور ہری مرچ ویسے تو سبزیوں کے نام ہیں مگر جس امید وار کو بینگن یا ہری مرچ انتخابی نشان کے طور پر الاٹ ہو گا اسے اپنے ووٹرز سے اسی انتخابی نشان پر ووٹ مانگنا ہوگا جو آزاد امیدوار اپنے لئے مشکل جبکہ بعض امیدوار اپنی قبل از انتخابی عمل شکست قرار دے رہے ہیں۔ جیسے کہ گزشتہ انتخابات میں ایک امیدوار کہتے ہیں کہ ان کو مولی کا نشان الاٹ ہوا مگر مخالفین نے مولی کو ان کے نام منسوب کرنا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں امیدوار پورے علاقے میں مذاق بن کے رہ گیا اور اس بیچارے کو نہ صرف شکست ہوئی بلکہ اب اس کو مولی خان کا نام سے چھیڑا بھی جاتا ہے ۔اس شرمندگی سے بچنے کیلئے اس نے آئندہ الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ کیا۔
اسی طرح مگر مچھ کو کئی علاقوں کے عوامی حلقوں میں کرپٹ اور بے ایمانی کرنے والے شخص سے منسوب کیا جاتا ہے ۔ ایسے میں جس امیدوار کو مگر مچھ کا نشان الاٹ ہوگا اس کیلئے انتخابی مہم کرنا کسی پہا ڑ کو سر کرنے کے مترادف ہوگا۔ جہاں اس کے مخالف امیدواروں کو اسے بدنام کرنے کیلئے ایک اضافی وجہ میسر ہو گی جو اس کی انتخابی مہم کو نا قابل تلافی نقصان پہنچاسکتی ہے۔ امیدواروں کو ایسے ہی اعتراضات ڈھول، رباب، گراموفون، چمٹہ، دف اور باجا ایسے نشانات پر ہیں جوکہ ہمارے الیکشن کے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتے۔
امیدواروں کا کہنا تھا کہ مثال کے طور پر اگر یہ نشانات ایک مذہبی رجحان رکھنے والے امیدوار کو الاٹ کر دیا گیا تو امیدوار اپنی انتخابی مہم کیسے چلائے گا۔ جن حالات میں پاکستان میں الیکشن ہوتے ہیں وہاں ان جیسے نشانات کو مذہبی رنگ میں ڈھالا جا سکتا ہے جس سے مخالف امیدوار کی سیاسی ساکھ کو دھچکا لگ سکتا ہے۔ ایک اور نشان مینارِپاکستان ہے اب جسں امیدوار کو یہ نشان ملے گا وہ انتخابی مہم میں بازی لے جانے کی جستجو میں ووٹرز کے فیصلے پر اثرانداز ہو گا جہاں وہ مینار پاکستان کے تاریخی پسِ منظرکو اپنے سیاسی فائدے کیلئےاستعمال کرسکتا ہے جبکہ مخالف امیدواروں کو بھی اس نشان پرضرور تحفظات ہوں گے۔
مزید کچھ ایسے انتخابی نشان بھی سامنے آئے ہیں جو ناپید ہو جانے والی چیزوں کے نام ہیں۔ جیسے کہ پرانے وقتوں میں استعمال ہونے والا رہٹ، چرخہ، کنواں اورہل ایسے نشان ہیں جو کہ اکثر لوگوں نے دیکھے بھی نہیں ہونگے۔ ایسے میں ووٹرز کو سمجھانا اور نشان سے روشناس کروانا بہت کٹھن مرحلہ ثابت ہو گا۔ امیدواروں کا کہنا تھا کہ انتخابی نشان ایسے ہونے چاہیں جوکہ ہر طبقے کا ووٹراچھی طرح سے ذہن نشین کرسکے تاکہ وہ اس قابل ہو کہ افراتفری، دھکم پیل اور روایتی گرم انتخابی ماحول میں پسندیدہ امیدوار کے انتخابی نشان کو سمجھ سکے اور صیح طریقے اپنا ووٹ کاسٹ کر سکے۔ مثال کے طور پر ہتھوڑا اور تیشہ عدل کے نشان آپس میں اتنے ملتے جلتے ہیں کہ ایک سادہ لوح ووٹر آسانی سے دھوکہ کھا سکتا ہے۔
بالکل اسی طرح قلم اور پنسل بھی بہت مشابہت رکھتے ہیں۔ مزید براں، پستول/ بندوق بھی انتخابی مہم کا حصہ ہونگے۔ حالانکہ عام انتخابات میں اسلحے کی نمائش پر مکمل پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ مگر اس الیکشن مہم کے دوران اسکی تشہیر بھی کرنی ہو گی جس میں بندوق/پستول کی ڈمی یا اصلی بندوق/پستول کی نمائش بھی شامل ہو سکتی ہے۔ جس سے اسلحے پر لگی پابندی کے بے اثر ہونے کا خطرہ بہرحال موجود رہے گا۔
پیراشوٹ، پرنٹر، فوٹو کوپئیر، ٹیبل ٹینس بیٹ، ٹریفک سگنل اور ٹائپنگ مشین ایسی اشیاء ہیں جن کو دوردراز کے علاقوں کے ووٹر نے کبھی زندگی میں دیکھا بھی نہ ہوگا مگر شہری علاقوں میں عام استعمال کی چیزیں ہیں، تاہم ان پڑھ ، بزرگ اور سادہ لوح لوگ ان انتخابی نشانوں کو بیلٹ پیپرسے تلاش کرکے ڈالیں گے اس دوران آپس میں ملتے جلتے اورپیچدہ نشانات ووٹر کے کیلئےکسی امتحان سے کم نہیں ہوں گے۔ ہر بار انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کا تقریبا 5% مسترد ہوجاتا ہے، اِس شرح کو کم کرنے اور آزاد امیدواروں کی دل جوئی کیلئے الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ نشان الاٹ کرتے وقت مندرجہ با لاہ مسائل کو مدِنظر رکھے۔