لاہور: (دنیا الیکشن سیل) 2013 کے عام انتخابات کے مقابلے میں 2018 میں کم امیدوار میدان میں اترے، اثاثوں کی عام اشاعت نے الیکشن لڑنے کے رجحان میں کمی کردی۔
پاکستان میں عام انتخابات کے دوران ماضی کی روایات کے مطابق الیکشن لڑنے کے خواہشمند افراد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے مگر انتخابی تاریخ میں پہلی بار کمی دیکھنے میں آئی ہے، جس کی وجہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اثاثوں کی عام اشاعت کیے جانے کا اعلان بتایا جاتا ہے۔ سیاستدانوں کی جانب سے اثاثوں کی اشاعت کو منظر عام پر لائے جانے سے روکنے کی کوشش بھی کی گئی، جس کے تحت پارلیمنٹ سے بل منظور کرایا گیا جس میں الیکشن لڑنے کے خواہشمند امیدواروں کو اثاثوں کی تفصیل جمع کرانے سے مستثنیٰ قرار دیدیا گیا تھا۔ بل کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے نیا فارم جاری کردیا گیا تھا، جس میں اثاثوں کی تفصیل جاننے کے نکات کو ختم کردیا گیا تھا۔
اس معاملے پر عوامی حلقوں کی جانب سے سخت تنقید کی گئی، جس کے بعد عوامی خواہش کے عین مطابق دنیا گروپ سے تعلق رکھنے والے صحافی حبیب اکرم اور سعد رسول کی جانب سے پٹیشن دائر کی گئی، جس میں اثاثوں کا جاننا ضروری بتایا گیا۔ عدالت نے صحافیوں کی پٹیشن پر تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے امیدواروں کو اثاثوں کی تفصیلات بتانے کا پابند کردیا۔ تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے نئے فارم کا اجراء فوری ممکن نہ ہوسکا تو امیدواروں کو پابند کیا گیا کہ وہ حلف نامے کی صورت میں اپنے اثاثوں کی تفصیلات بتائیں گے، جو قابل اشاعت ہوں گی۔
اثاثوں کی عام اشاعت کے اعلان کے بعد الیکشن میں حصہ لینے کے خواہشمند افراد میں اچانک کمی کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق کاغذات نامزدگی میں کمی کے بعد 2018 میں 21,482 کاغذات نامزدگی داخل ہوئے ہیں۔ جو 2013 میں الیکشن کمیشن کے اعدادوشمار کے مطابق 28,302 تھے۔
قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے بلوچستان، خیبر پختونخوا، فاٹا، پنجاب، اسلام آباد اور سندھ میں تعداد میں کمی کے بعد 2018 میں کل 5,473 افراد نے کاغذات نامزدگی داخل کرائے، جبکہ 2013 میں ان کی تعداد 7,996 تھی۔ البتہ خواتین کی مخصوص قومی نشستوں کی بات کی جائے تو خواتین نے اثاثوں کی عام اشاعت کو عام انداز میں لیا اور ان کی تعداد بڑھ کے 2013 میں 350 سے 2018 میں 436 ہوگئی ہے۔
اسی طرح اگر صوبائی سطح کی بات کی جائے تو بلوچستان سے قومی اسمبلی کے 435 کاغذات موصول ہوئے جو کہ 2013 میں 439 تھے۔ خیبر پختونخوا معہ فاٹا سے قومی اسمبلی کے 992 کاغذات موصول ہوئے، جو 2013 میں 1390 تھے۔ پنجاب معہ اسلام آباد میں 2700 کاغذات موصول ہوئے جو 2013 میں 4160 تھے۔ اسی طرح سندھ میں 1346 کاغذات موصول ہوئے جو 2013 میں 2007 تھے۔
اگرصوبائی اسمبلی کی نشستوں کے حوالے سے بلوچستان سے 2018 میں کل 1,400 کاغذات موصول ہوئے جبکہ 2013 میں 1,648 کاغذات موصول ہوئے تھے۔ خیبرپختونخوا اور فاٹا میں مجموئی طور پر 2018 میں 1,920 کاغذات موصول ہوئے، 2013 میں ان کی تعداد 2,572 تھی۔ پنجاب سے 2018 میں 6,747 کاغذات داخل ہوئے جبکہ 2013 میں ان کی تعداد 9,392 تھی۔ صوبہ سندھ میں 2018 میں 3,626 کاغذات موصول ہوئے تھے جن کی تعداد 2013 میں 5,213 تھی۔
اگر اقلیتوں پر نظر دوڑائی جائے تو مجموعی طور پہ صوبائی سطح پر 2018 میں ان کی تعداد بڑھ کے471 ہوگئی ہے، جو 2013 میں 310 تھی۔ اسی طرح خواتین کی مخصوص نشستوں کی بات کی جائے تو صوبوں میں مجموعی طور پر اضافے کے بعد 2018 میں 1,255 ہو گئی جو 2013 میں 821 تھی۔