الیکشن 2018 کے کئی بڑے اپ سیٹ

Last Updated On 26 July,2018 08:15 pm

لاہور (دنیا نیوز ) 25 جولائی کو منعقد ہونے والے عام انتخابات اپنے اختتام کو پہنچ چکے ہیں اور اس کے ساتھ ہی کئی سیاسی رہنمائوں کا کیریئر بھی۔ اس بار سیاسی افق پر کچھ چہرے ایسے ہیں جو پہلی بار ایوان تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تو کچھ ایسے ہیں جو کئی بار ایوان کی رکنیت اور وزارت سے بھی لطف اندوز ہوچکے ہیں۔

ہمیشہ کی طرح پاکستانی سیاست نے اس بار بھی الیکشن میں اپنا منفرد رنگ دکھایا اور سیاسی بساط پر کچھ ایسے مہرے کھسکائے کہ کئی بڑے بڑے برج الٹ گئے، کچھ نئے اور غیر معروف نام ایوان کی فہرست کا حصہ بنے تو کچھ بڑے نام ناکامی کی گرد کی دیوار کی اوٹ میں آ کر آنکھوں سے اوجھل ہوگئے۔

زیادہ لطف اندوز اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بار بھی کئی ایسے معروف نام کامیابی کا زینہ چڑھنے سے محروم رہ گئے جو چند ماہ قبل ایوان کی سیڑھیاں اس عزم اور خام خیالی کے ساتھ اترے تھے کہ تین ماہ کے بعد یہی ایوان ایک بار پھر ان کا منتظر ہوگا ، مگر شومئی قسمت ایسا ممکن نہ ہوسکا اور وہ کامیابی کی حسرت دل میں لئے بے نیل و مرام گھر کو لوٹ گئے۔ ذیل میں ایسے ہی چند معروف سیاستدانوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جو چند ماہ قبل تک سیاسی افق پر بلند پرواز میں محو تھے مگر آج شاید ان پر آسمان تنگ کر دیا گیا ہے جو ان کی پرواز ایوان کی چار دیواری سے باہر تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن
اتحادی سیاست کے ماہر اور مسلم لیگ ن کے کٹر حمایتی جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اس بار دہرے محاذ پر پسپا ہوئے۔ وہ اس بار کے پی کے کی دو نشستوں پر ایم ایم اے کی جانب سے امیدوار تھے مگر کپتان کے ایک ناتجربہ کار کھلاڑی نے انہیں کلین بولڈ کر دیا اور وہ بڑے مارجن سے دونوں سیٹیں ہار گئے۔

شاہد خاقان عباسی 

سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی نااہلی کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت کو سنبھالا دینے والے سابق وزیر پی آئی اے شاہد خاقان عباسی بھی اس بار ایوان کا منہ نہ دیکھ سکے۔ شاہد خاقان عباسی نے اس بار این اے 53 اور این اے 57 دونوں نشستوں سے کاغذات جمع کرائے تھے مگر ایک نشست پر انہیں 48000 اور دوسری پر 12000 ووٹوں کے بھاری مارجن سے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔

حاجی غلام احمد بلور
اے این پی کے رہنما حاجی غلام احمد بلور اس بار این اے 31 سے تحریک انصاف کے امیدوار شوکت علی کے مدمقابل قسمت آزما رہے تھے مگر ان کی قسمت نے یاوری نہ کی اور وہ 88000 ووٹوں کے بھاری مارجن سے الیکشن ہار گئے۔ غلام احمد بلور اس سے قبل نواز شریف کے دور حکومت میں وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔


سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اس بار لوئر دیر سے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا ۔ این اے 7 سے انتخابات میں حصہ لینے والے اس سینئر سیاستدان کو پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار محمد بشیر خان نے تقریباً 17 ہزار ووٹوں کے مارجن سے شکست دی۔ بشیر خان نے کل 62416 ووٹ حاصل کئے تھے۔


چودھری نثار علی خان
پاکستان مسلم لیگ ن میں سب سے دھیمے مزاج کے حامل زیرک سیاستدان اور سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کو بھی اس بار الیکشن میں کامیابی کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ مسلم لیگ ن سے اختلافات کے باعث انہوں نے پارٹی سے ٹکٹ لینے سے انکار کر دیا اور آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا، مگر وہ تحریک انصاف کے امیدوار غلام سرور خان سے 16000 سے زائد ووٹوں کے مارجن سے مات کھا گئے، ان کی شکست اس حوالے سے میڈیا میں زیر بحث رہی کہ 1985 سے اب تک یہ ان کی اپنے آبائی حلقے میں پہلی شکست تھی۔

مصطفیٰ کمال
ایم کیو ایم کے سابق سرگرم رکن اور پارٹی قائد کی ملک دشمن سرگرمیوں سے تنگ آکر اپنی الگ جماعت بنانے والے مصطفیٰ کمال کو بھی اس الیکشن میں ایوان میں داخلے کا این او سی نہ مل سکا۔ پاک سرزمین پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لینے والے مصطفیٰ کمال کامیابی کا منہ نہ دیکھ سکے ۔


عابد شیر علی
فیصل آباد کی سیاست میں ایک سرگرم کردار ادا کرنے اور سیاسی مخالفین پر اپنی ترش زبانی کے وار کرنے کے حوالے سے مشہور عابد شیر علی اس بار گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے۔ عابد شیر علی کو فیصل آباد میں ان کی آبائی نشست پر بھی اتنے زیادہ ووٹ نہ مل سکے جو انہیں ایک بار پھر ایوان میں پہنچا سکیں۔ شاید ان کے اپنے ووٹرز ان کی ترش زبانی سے تنگ تھے یا ان کی کارکردگی پانچ برسوں میں اتنی بہتر نہ ہوسکی جو انہیں ایک بار پھر ایوان میں جانے کا سرٹیفکیٹ دلوا سکے۔

 

سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے تحریک انصاف کے علیم خان کو پچھاڑ دیا، علیم خان صوبائی اسمبلی کی نشست بھی ہار گئے، جبکہ این اے 125 میں تحریک انصاف کی مضبوط امیدوار ڈاکٹر یاسمین بھی ہارگئیں، انہیں وحید عالم کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ اُدھر این اے 158 ملتان سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو تحریک انصاف کے امیدوار محمد ابراہیم خان کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

سیاست میں بڑے برج الٹنا اب ایک روایت سے بنتی جا رہی ہے۔ عوام کیلئے شاید یہ ایک معمول کی بات ہو مگر کسی سینئر سیاستدان کا یوں اپنی آبائی سیٹ سے شکست کھا لینا یا عوام کا اس کے سر سے دست شفقت اٹھا لینا عام بات نہیں۔ مگر یہ سیاستدانوں کیلئے ایک سبق ضرور ہے کہ اگر انہیں کامیابی حاصل کرنا ہے تو عوام کی سچے دل سے خدمت کرنا ہوگی۔