لاہور: (دنیا الیکشن سیل) پنجاب اور اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے حلقوں میں انتہائی زبردست مقابلہ ہو رہا ہے ۔ دنیا الیکشن سیل نے پنجاب کا کونا کونا پھر کر مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سے رائے حاصل کی، یہ رائے رجحانات کی عکاسی کرتی ہے۔ ہم کوئی انتخابی نتائج پیش نہیں کر رہے بس وہ سروے پیش خدمت ہیں جو ہم نے مختلف شہروں میں مختلف لوگوں سے کیے۔ جنوری سے 18 جولائی 2018ء تک دنیا الیکشن سیل لوگوں سے رائے اکٹھی کرتا رہا، اصل میدان چونکہ پنجاب میں سجا ہے اور یہی فیصلہ کن کردار ادا کرے گا لہٰذا پنجاب کے اہم حلقوں پر نظر ڈالتے ہیں۔
ہمارے سروے کے مطابق پنجاب میں قومی اسمبلی کی 141 نشستوں میں سے 63 نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف 59 پر مسلم لیگ (ن)، 2 پر پاکستان پیپلز پارٹی، 3 پر مسلم لیگ ( ق)، ایک پر پاکستان مسلم لیگ ضیاء الحق گروپ، 2 پر پاکستان عوامی راج، اور 1 پر عوامی مسلم لیگ کے حامی زیادہ نکلے۔ہمارے سروے میں مختلف افراد نے 7 آزاد امیدواروں کی حمایت بھی کی، آئیےتفصیل پڑھتے ہیں۔
انتخابات 2013ء میں پوٹھوہار کے حلقوں میں مسلم لیگ ن کا مخالف ووٹ تحریک انصاف اور آزاد اُمیدواروں کے درمیان تقسیم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے اُمیدوار با آسانی الیکشن جیت کر اسمبلی میں پہنچ گئے۔ مگر اب 2018ء میں پی ٹی آئی نے مسلم لیگ ن کو انتخابی میدان میں مشکلات سے دو چار کرنے کے لیے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے۔ اور اب با اثر خاندانوں اور آزاد امیدواروں کو ساتھ لے کر چلنے کی وجہ سے طاقتور حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ اس مرتبہ مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو ون ٹو ون مقابلہ کرنا ہوگا۔ اس کا مخالف ووٹ اس بُری طرح تقسیم نہیں ہوگا جیسا کہ 2013ء میں ہوا تھا۔
ہمارے سروے میں اٹک کے دونوں حلقوں پر پاکستان تحریک انصاف یا اس کے حمایت یافتہ امیدوار آگے دکھائی دئیے۔
راولپنڈی کی 7 نشستوں میں سے 2 پر پی ٹی آئی، 2 پر مسلم لیگ (ن)، ایک پر آزاد امیدوار اور 2 پر عوامی لیگ کا پلڑا بھاری رہا۔ واضح رہے کہ این اے 60 میں حنیف عباسی کے نااہل ہونے کے بعد عام انتخابات ملتوی ہوگئے ہیں۔
ہمارے سروے میں چکوال کی دو میں سے ایک نشست تحریک انصاف اور ایک نشست پر پی ٹی آئی کی حمایت سے ق لیگ کو زیادہ لوگوں نے اپنی حمایت کا یقین دلایا۔
ہمارے سروے سے پتہ چلا کہ جہلم کی ایک نشست پر مسلم لیگ (ق) اور دوسری پر مسلم لیگ (ن) کا پلڑا بھاری ہے۔
گجرات کی 2 نشستوں پر مسلم لیگ ق، ایک پر پی ایم ایل این اور ایک پر پاکستان تحریک انصاف کے حامی زیادہ نکلے۔
سیالکوٹ کی ایک نشست پر پی ٹی آئی، 3 پر مسلم لیگ (ن) اور عثمان ڈار اور خواجہ آصف کی نشست پر مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے حامیوں کی تعداد برابر ہے۔
نارووال سے ایک نشست پر آزاد امیدوار اور دوسری پر مسلم لیگ ( ن) کے حامی ہمارے سروے میں زیادہ نکلے۔
گوجرانوالہ میں 3 نشستوں پر پاکستان مسلم لیگ (ن)، 2 پر پی ٹی آئی کے حامی زیادہ نکلے جبکہ حلقہ این اے 83 میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے حامیوں کی تعداد برابر ہے۔
منڈی بہاؤالدین کی 2 نشستوں پر ایک میں پی ٹی آئی اور دوسرے میں مسلم لیگ ( ن) کے حامی زیادہ تھے۔
حافظ آباد کی اکلوتی نشست پر پی ایم ایل این کے حامی زیادہ تھے۔
سرگودھا کی 3 نشستوں پر پی ٹی آئی اور 2 پر مسلم لیگ (ن) کے حامی زیادہ تھے۔
خوشاب کی دونوں نشستوں پر مسلم لیگ ن کے حامیوں کی تعداد زیادہ ہے۔
میانوالی کی دونوں نشستوں پر پی ٹی آئی کا پلڑا بھاری ہے۔
بھکر کی دو میں سے ایک نشست پر پی ٹی آئی اور دوسری پر پی ایم ایل این کا پلڑا بھاری رہا۔
ہمارے سروے کے مطابق چنیوٹ کی دو سیٹوں میں سے ایک پر پی ٹی آئی اور ایک پر مسلم لیگ (ن) کے حامی زیادہ تھے۔
فیصل آباد کی 10 میں سے 5 نشستوں پر پی ٹی آئی، 4 پر مسلم لیگ (ن) اور ایک پر آزاد امیدوار آگے دکھائی دئیے۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ میں 3 نشستیں ہیں ہمارے سروے میں ان تینوں نشستوں پر پی ٹی آئی کے حامی زیادہ دکھائی دئیے۔
جھنگ میں 3 میں سے ایک نشست پر پی ٹی آئی، دوسری پر آزاد اور تیسری نشست پر پیپلزپارٹی کے امیدوار کے حامی زیادہ ہیں۔
ننکانہ صاحب کی دو نشستیں ہیں ہمارے سروے میں ایک نشست پر تحریک انصاف اور ایک پر ن لیگ کے حامی زیادہ دکھائی دئیے۔
شیخوپورہ کی 4 میں سے 3 نشستوں پر پاکستان مسلم لیگ (ن) اور ایک پر پاکستان تحریک انصاف آگے دکھائی دی۔
اب ہم ذکر کرتے ہیں لاہور کے حلقوں کا جہاں تخت لاہور کے لیے فیصلہ کن کوششیں جاری ہیں۔ لاہور کی 14 نشستوں میں سے 10 پر مسلم لیگ (ن) اور 4 پر پاکستان تحریک انصاف کے حامی زیادہ تھے۔
قصور کی ایک نشست پر پی ٹی آئی اور 3 پر مسلم لیگ (ن) کے حامی زیادہ تھے۔
اوکاڑہ میں پی ٹی آئی کے حامی کسی حلقے میں زیادہ دکھائی نہ دئیے۔ 3 نشستوں پر مسلم لیگ (ن) اور ایک پر آزاد امیدوار آگے نظر آیا تاہم اس آزاد امیدوار کو پی ٹی آئی کی حمایت حاصل ہے۔
پاکپتن میں دونوں نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کے حامی زیادہ دکھائی دئیے۔
ساہیوال کی 3 میں سے 2 نشستوں پر مسلم لیگ (ن) اور ایک پر پی ٹی آئی کے حامی زیادہ تھے۔
جنوبی پنجاب چلتے ہیں، جہاں ہمارے سروے میں 26 نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف اور 11 پر مسلم لیگ (ن) کا پلڑا بھاری دکھائی دیا۔ دو نشستیں آزاد امیدواروں ایک پیپلزپارٹی، دو پاکستان عوامی راج، ایک مسلم لیگ (ق) کو ملنے کا امکان ہے، یہاں 2 نشستوں پر انتہائی سخت مقابلہ ہوگا۔ جنوبی پنجاب کے حلقوں میں خانیوال کی 3 نشستوں پر مسلم لیگ (ن) اور ایک پر پی ٹی آئی آگے دکھائی دی۔
ملتان کی 4 نشستوں پر پی ٹی آئی اور ایک پر پی ایم ایل این اور ایک پر آزاد امیدوار کے حامی زیادہ تھے۔
لودھراں کی دونوں نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کے حامی زیادہ نکلے۔
وہاڑی کی 4 میں سے دو نشستوں ہر پاکستان تحریک انصاف اور 2 پر مسلم لیگ ن کے حامیوں کی تعداد زیادہ ہے۔
بہاولنگر میں دو نشستوں پر ہمارے سروے میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ایک نشست پر مسلم لیگ ضیاء کے حامی زیادہ تھے۔ ایک نشست پر کوئی رائے نہیں دی جاسکتی۔
بہاولپور کی 5 میں سے 3 پر ہمارے سروے میں پی ٹی آئی کے حامی زیادہ تھے۔ ایک نشست پر پی ایم ایل این اور ایک پر مسلم لیگ (ق) کے حامی زیادہ نکلے۔
رحیم یار خان، مظفر گڑھ، لیہ اور راجن پور میں پاکستان تحریک انصاف کے حامیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ رحیم یار خان میں پی ٹی آئی کو 5، آزاد امیدوار کو ایک نشست ملنے کا امکان ہے۔
مظفر گڑھ کی 3 نشستوں پر پی ٹی آئی، ایک پر آزاد اور 2 پر عوامی راج کا راج دکھائی دیا۔
لیہ کی دونوں نشستوں پر پی ٹی آئی کے حامی ہمارے سروے میں زیادہ تھے۔
ڈی جی خان میں ہمارے سروے کے مطابق ایک نشست پر آزاد امیدوار، ایک پر پی ٹی آئی اور ایک پر پی ایم ایل این کے حامی زیادہ ہیں جبکہ ایک نشست پر پی ٹی آئی اور پی ایم ایل این کے حامیوں کی تعداد برابر ہے۔
پنجاب میں حلقہ بندیوں کے لحاظ سے آخری ضلع راجن پور کی 3 نشستوں میں سے 2 پر پی ٹی آئی اور ایک پر مسلم لیگ ن کے حامی زیادہ ہیں۔
واضح رہے کہ دنیا نیوز الیکشن سیل کے سروے میں صرف ان افراد کی رائے کو شمار کیا گیا ہے جو قانون کے مطابق ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں اور ان کا نام ووٹر لسٹ میں درج ہے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دنیا میڈیا گروپ نے یہ سروے خالصتاً اپنے وسائل سے کیا ہے اور اس دوران حتی الامکان کوشش کی ہے کہ سیاسی جماعت کے کارکنان، امیدواروں کے دوستوں اور رشتہ داروں کی رائے سروے کا حصہ نہ بننے پائے۔ دنیا میڈیا گروپ کی کوشش ہے کہ اپنے دیکھنے، سننے اور پڑھنے والوں کو تازہ ترین زمینی حقائق سے باخبر رکھے تاکہ وہ آنے والے الیکشن میں اپنی مرضی کے مطابق آزادانہ فیصلہ صادر کرسکیں۔ یہ سروے مختلف اوقات میں کئے گئے ہیں اور ان کے نتائج تازہ سیاسی واقعات کی روشنی میں تبدیل بھی ہوسکتے ہیں۔