حضرت بہاء الدین زکریاؒ، خدمات اور تعلیمات

Last Updated On 16 October,2018 06:18 pm

لاہور: (روزنامہ دنیا) حضرت غوث بہاء الدین زکریا سہروردی ملتانیؒ ان عظیم بزرگان دین اور صلحائے امت میں سے ہیں جنہوں نے برصغیر میں کفر، جہالت اور گمراہی کے اندھیروں میں توحید و رسالت اور علم و ہدایت کے وہ چراغ روشن کیے جن کی شعاعوں سے یہ خطہ ارضی منور ہو گیا۔

کلمہ حق ان کا پیغام، صلح جوئی ان کا مسلک، محبت ان کا اثاثہ، عشق رسولؐ ان کا ایمان اور خدمت خلق ان کا شعار تھا۔ آپؒ نے انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے آزاد کیا۔ انہیں کفر سے ایمان، ظلمت سے نور، سرکشی سے اطاعت اور مادہ پرستی سے روحانیت کی طرف بلایا۔ آپؒ نے نفرتوں کی جگہ محبتوں کی تعلیم دی، آویزشوں کو صلح و آشتی میں بدلا اور ایک جنت نظیر معاشرہ تشکیل دیا۔

حضرت بہاء الدین زکریا سہروردیؒ کا عہد ایک صدی پر محیط ہے۔ اس عرصے میں آپؒ نے علوم ظاہر و باطن اور مختلف فنون وہنر کو فروغ بخشا۔ ملتان مذہبی، تاریخی اور ثقافتی اعتبار سے اسلام کا مرکز بن گیا۔ مساجد کی تعمیر، مدارس عربیہ کا قیام، لنگر خانوں کا اہتمام اور اسلامی فن تعمیر کی حامل روایات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ برصغیر کے ہندو قبائل جن میں متمول تاجر اور بعض والیان ریاست بھی تھے، نے آپؒ کے دست حق پرست پر اسلام قبول کیا۔ دیگر سلسلہ ہائے تصوف کی طرح سلسلہ سہروردیہ کے شیخ کامل نے تبلیغ کے ساتھ عمل پیہم، جہد مسلسل، انسانی فلاح اور خدمت خلق کا درس دیا۔ مخلوق خدا کی خدمت کے لیے تجارت و زراعت کو فروغ بخشا۔ افتادہ جنگلوں کو آباد کرایا۔ کنوئیں اور نہریں کھدوائیں، اور تجارت پر خاص توجہ دی۔ قریہ قریہ اور گائوں گائوں پہنچ کر لوگوں کو تجارت کی ترغیب دی اور اس طرح ان میں رزق حلال کے حصول کا جذبہ بیدار کیا اور ترک دنیا کی بجائے مال و دولت کے جائز حصول میں بھی حیات اخروی کو منزل مقصود قرار دیا۔

آپؒ نے اسلام کی اخلاقی اور روحانی تعلیمات کو اپنی عملی زندگی کے ذریعے پیش کیا۔ ذہنی انتشار اور اخلاقی پستی کے مہیب غار میں گر کر تباہ ہونے والی قوم کو بچایا۔ آپؒ نے اتباع رسول ﷺ پر خاص زور دیا اور اپنی عملی زندگی سے اس کا بہترین نمونہ پیش کیا۔ حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ نے تقریباً 850 برس پیشتر سرزمین ملتان کو تبلیغ دین اور اشاعت علوم اسلامیہ کا مرکز ومنبع بنایا اور ملتان میں علوم اسلامی کی عظیم درسگاہ قائم کی جسے برصغیر کی پہلی اقامتی درسگاہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ یہ ایک عظیم اخلاقی اور روحانی درسگاہ بھی تھی۔ اس میں مختلف علوم و فنون سکھائے جاتے تھے۔ آپؒ کی درسگاہ سے 70ہزار علم کے طالب اور سالکان راہ طریقت فیض یاب ہوئے۔ آپؒ کے خلفاء میں مخدوم سید جلال الدین بخاری اوچویؒ، مخدوم سید محمد عثمان مروندی المعروف لال شہباز قلندرؒ، میر سادات حسینیؒ، مولانا فخرالدین عراقیؒ، خواجہ حسن افغانؒ،شیخ موسیٰ نوابؒ اورآپؒ کے صاحبزادے شیخ صدر الدین عارفؒ شامل ہیں۔ آپؒ کے خلفاء اور تلامذہ نے بنگال، کشمیر، جاوا، سماٹرا، انڈونیشیائ، ملائیشیا اور نو آزاد مسلم ریاستوں میں پھیل کر تبلیغ دین اور اشاعت اسلام میں بھرپور کردار ادا کیا۔ مساجد و مدارس اور مقابر تعلیم و تدریس کا ذریعہ بن گئے۔ آپؒ کی تعلیمات کا عکس ان علاقوں کے لوگوں کی تہذیبی اور ثقافتی زندگی میں نمایاں نظر آتا ہے۔ آپؒ کے ارشادات و فرموات اور تعلیمات محض آپ کے ارادت مندوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے اسلامی معاشرے کے لیے ہیں۔ ان تعلیمات میں مستقل روحانی علاج اور رہتی دنیا تک تازگی کا احساس باقی رہنے والا ہے۔

1 آپ ؒ ارشاد فرماتے ہیں:’’بدن کی سلامتی قلت طعام میں، روح کی سلامتی ترک گناہ میں اور دین کی سلامتی حضرت خیر الانام محمد مصطفیٰ ﷺ پر درود بھیجنے میں ہے‘‘۔

2 محبت ایسی آگ ہے جو تمام میل کچیل کو جلاڈالتی ہے جب محبت الٰہی راسخ ہوجاتی ہے تو نفرتوں کی کثافت خودبخود ختم ہوجاتی ہے۔ اس طرح باہمی اختلافات ختم ہوجائیں گے اور ہم یک جہتی واخوت اور امن و آشتی کے ماحول میں اپنی منزل کی طرف بڑھ سکیں گے۔

3 خدا کی رضابندے اور بندے کی رضا خداسے ہے۔ بندہ اگر خدا کی رضا پر راضی ہو تو خالق و مخلوق کے درمیان سے پردے اٹھنے لگتے ہیں۔بندوں سے خدا کی رضایہ ہے کہ وہ ان کو ثواب و بزرگی اور نعمتیں عطاکرتا ہے اور خدا سے بندوں کی رضایہ ہے کہ وہ اس کے احکام کی تعمیل کریں۔

4 بندے پرواجب ہے کہ سچائی اور اخلاص سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے۔ اس کی عبادت و اذکار میں غیر اللہ کی نفی ہو۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے احوال کو درست اور اقوال میں اپنے نفس کا محاسبہ کرے۔ ضرورت کے سوا کوئی بات نہ کہے اور نہ ہی کوئی کام سرانجام دے۔ اپنے ہر قول و فعل سے پہلے اللہ تبارک و تعالیٰ سے التجا کرے اور اس سے نیک عمل کی توفیق طلب کرے۔

5 آپؒ نے صوفی کے بارے میں فرمایا:’’صوفی وہ ہے جس کا دل کدورت سے پاک ہو۔ صوفی کے بعد عارف کا درجہ آتا ہے ۔ عارف ،خدا کا دوست اور دنیا کا دشمن ہوتا ہے‘‘۔

6 ایک مرید کو نصیحت فرماتے ہوئے کہاکہ:’’انسان میں اصل چیزدل ہے اور جب اس دل کی اصلاح ہوجاتی ہے تو انسان کے ہرعضو کی اصلاح ہونے لگتی ہے۔ دل کی موت اورزندگی بھی اسی طرح کی ہے۔اگر حق کا پرستار نہیں تو مردہ ہے اور اگر ذکر الٰہی میں مشغول ہے تو اس کا دل زندہ ہے‘‘۔

حضرت بہاء الدین زکریا ؒ نے 7صفر المظفر سن 661ہجری میں وصال فرمایا ۔آپؒ کاسالانہ عرس 5تا7صفر المظفر میں درگاہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ قاسم باغ ملتان میں سابقہ روایات کے مطابق عقیدت و احترام سے منایا جارہا ہے۔

تحریر: (ڈاکٹر محمد صدیق خان قادری)