افغان طالبان کو قانونی حثیت مل گئی؟

Last Updated On 10 November,2018 10:32 am

لاہور: (روزنامہ دنیا) ماہرین کا خیال ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ بھارت نے افغانستان کے متعلق کسی مذاکرات میں شرکت کی ہے، جس سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ یہ اجلاس امن کے لیے راستے کھول سکتا ہے۔ تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی نے بتایا، ‘‘میرے خیال میں بھارت کی ان مذاکرات میں شرکت بہت معنی خیز اور مثبت ہے کیونکہ افغان حکومت، امریکا اور بھارت کی سوچ ایک ہی جیسی ہے۔ ان کا اس طرح طالبان اور پاکستان کے نمائندوں کے سامنے بیٹھنا مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے میں معاون ثابت ہو گا۔ اس اجلاس کی وجہ سے امریکا پر بھی دباؤ بڑھے گا کہ وہ امن کوششیں تیز کر د۔ کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا، تو چین، روس، ایران، پاکستان اور بھارت خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر اس مسئلے میں رہنما کردار ادا کریں گے۔’’

افغان طالبان پر بھی روس اور خطے کے دوسرے ممالک کا دباؤ بڑھے گا کہ وہ امن کے لیے کام کریں کیونکہ روس نے ان کو ایک طرح سے قانونی حیثیت دلوانے کی کوشش کی ہے۔ اسلام آباد کو یہ شکوہ رہا ہے کہ بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہا ہے اور پاکستان دشمن عناصر کی مدد کر رہا ہے ۔ نئی دہلی ان الزامات کی تردید کرتا ہے اور اس کا موقف ہے کہ وہ اس جنگ زدہ ملک میں امن کے لیے کسی بھی ایسی کوشش کی حمایت کرے گا، جو کابل نے شروع کی ہو اور جس کی باگ ڈور بھی افغان حکومت ہی کے پاس ہو۔

کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں پاکستان اور بھارت کا افغان امن کے لیے ایک ساتھ بیٹھنا بھی بہت بڑی بات ہے ۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ایوب ملک کے خیال میں پاکستان اور بھارت کو ہر ایسے اقدام کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جس سے خطے میں استحکام پیدا ہو۔ خطے میں استحکام اور امن ہو گا تو یہاں خوشحالی آئے گی۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ اسلام آباد اور نئی دہلی اپنی لڑائیاں صرف آپس میں ہی نہیں لڑ رہے بلکہ انہوں نے افغانستان کو بھی اس کشیدگی کا حصہ بنا لیا ہے اور دونوں کی کوشش ہے کہ وہاں اثر و رسوخ حاصل کیا جائے۔ میرے خیال میں یہ مناسب پالیسی نہیں ہے۔ اب جب کہ بھارت بھی ان مذاکرات کا کسی نہ کسی طرح رسمی یا غیر رسمی طور پر حصہ بنا ہے تو پاکستان کو بھی پورا تعاون کرنا چاہیے۔ اگر افغانستان میں امن ہو گا، تو اس سے پورے خطے کو فائدہ ہو گا۔ چین کو معاشی ایجنڈے کی تکمیل میں مدد ملے گی، جس کے ثمرات سے افغانستان اور بھارت سمیت خطے کے سارے ممالک فائدہ اٹھائیں گے ۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ بھارت پہلی مرتبہ ایسے مذاکرات کا حصہ بنا ہے ۔ اس سے یقیناً اس جنگ زدہ ملک کو بدامنی سے نکالنے میں مدد ملے گی۔
 

Advertisement