سو روزہ حکومت اور تنازعات

Last Updated On 28 November,2018 04:52 pm

لاہور: (طارق حبیب) رہنماؤں کے غیر ذمہ دارانہ رویے حکومت کیلئے تنقید کا باعث تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوتے ہی اسے اپنے دعوؤں اور وعدوں سے پیچھے ہٹنے کے ساتھ ساتھ جن ایشوز پر سب سے زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا وہ مختلف تنازعات تھے۔

سیاسی ماہرین کے مطابق حکومت کی جانب سے کئے گئے اعلانات غلط ثابت ہونے کے بعد ان پر قائم رہنے کے لیے دیئے گئے جواز نے کئی موقعوں پر انتہائی مضحکہ خیز صورتحال پیدا کر دی تھی جس کی وجہ سے حکومت کو خفت اٹھانی پڑی۔

حکومت کے قیام کے بعد سب سے پہلے 24 اگست کو امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو کا معاملہ سامنے آیا، انہوں نے مبینہ طور پر عمران خان کو وزیراعظم بننے اور انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد دی جس کے بعد امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اعلامیہ جاری کیا گیا اور اس میں کہا گیا کہ وزیراعظم عمران خان سے پاکستان میں موجود دہشت گردی کے کیمپوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے بھی کہا گیا ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے اس بیان کی تردید کی گئی اور امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو بیان واپس لینے کے لیے کہا گیا تاہم امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے پاکستانی دفتر خارجہ کے بیان کے بعد 30 اگست کو دونوں شخصیات کے درمیان ہونے والی بات چیت کا مکمل ٹرانسکرپٹ جاری کر دیا۔

اس واقعہ کے بعد کئی روز تک تحریک انصاف مسلسل غلط بیانی کرنے پر قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں تنقید کا نشانہ بنتی رہی۔ اسی طرح ایک اور سفارتی تنازع نے اس وقت جنم لیا جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے حکومت پاکستان کو مبارکباد کا رسمی خط موصول ہوا۔

یہ خط موصول ہونے کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد پہلے روز ہی بیان جاری کیا کہ بھارت میں قائم مودی حکومت پاکستان سے مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ سے شروع کرنا چاہتی ہے۔

پاکستانی وزیر خارجہ کے اس بیان کے بین الاقوامی میڈیا پر نشر ہونے کے بعد بھارتی حکومت نے پاکستانی حکومت کو لکھے گئے اپنے رسمی خط کی نقل بھارتی صحافیوں کو فراہم کر دی جس کے بعد پاکستانی دفتر خارجہ کو اپنے وزیر خارجہ کا بیان واپس لینا پڑا تھا۔

شاہ محمود قریشی کے اس بیان کے بعد مقامی سطح پر بھی سیاسی اور امور خارجہ کے ماہرین کی جانب سے شاہ محمود قریشی پر سخت تنقید کی گئی تھی۔

قومی سطح پر بیوروکریسی پر اثر ورسوخ استعمال نہ کرنے کے دعوے کرنے والی تحریک انصاف اس وقت سخت تنقید کی زد میں آئی جب سابق آئی جی پنجاب محمد طاہر کو ہٹا دیا گیا۔ مبینہ طور پر آئی جی پنجاب کو مختلف افسران کے تبادلوں اور تقرریوں کے لیے دباﺅ ڈالا جا رہا تھا تاہم سابق آئی جی پنجاب محمد طاہر کا کہنا تھا کہ ضمنی انتخابات کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے تبادلے و تقرریوں پر پابندی عائد کی ہوئی ہے، اس لیے وہ اس حکم پر عمل کرنے سے قاصر ہیں۔

حکومتی ترجمان نے موقف اختیار کیا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے احکامات نہ ماننے پر آئی جی پنجاب کو ان کی ذمہ داریوں سے ہٹایا گیا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ کی مداخلت سے مختلف معاملات سامنے آئے جن میں اعظم سواتی کے ملازمین کا غریب خاندان پر تشدد، متعلقہ خاندان کو بچوں سمیت جیل بھجوائے جانے پر عدالت سخت برہم ہوئی اور معاملہ کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنا دی گئی تھی۔

جے آئی ٹی کی رپورٹ میں اعظم سواتی کو ناصرف قصوروار ٹھہرایا گیا تھا بلکہ زمین پر قبضہ کرنے کا بھی ذمہ دار قرار دیا گیا تھا جبکہ 8 نومبر کو سی ڈی اے کی جانب سے اعظم سواتی کو فارم ہاﺅس میں غیر قانونی تعمیرات پر نوٹس جاری کیا گیا تھا۔

اس ایشو کے بعد تحریک انصاف کی حکومت اور طرز حکومت کو میڈیا اور عوامی سطح پر سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ بیوروکریسی پر دباﺅ استعمال نہ کرنے کے موقف سے پیچھے ہٹنے کا دوسرا معاملہ اس وقت سامنے آیا جب تحریک انصاف کے رکن اسمبلی اعظم سواتی کی شکایت پر ایک غریب خاندان کو گرفتار نہ کرنے پر سابق آئی جی اسلام آباد جان محمد خان کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔

سفارتی سطح پر مختلف تنازعات کی زد میں رہنے کے علاوہ مقامی سطح پر بھی تحریک انصاف کو مختلف اقدامات پر تضحیک کا سامنا کرنا پڑا اور سخت خفت اٹھانا پڑی۔

اس حوالے سے پہلا معاملہ وزیراعظم عمران خان کے بنی گالا سے وزیراعظم تک روزانہ ہیلی کاپٹر سے سفر کرنے کا سامنا آیا۔ عوامی دولت بچانے اور کفایت شعاری کے دعوے کرنے کے بعد ایسے اقدامات کیے جانے پر تحریک انصاف کے رہنماﺅں اور وزیراعظم عمران خان پر تنقید کی گئی۔

دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب حکومتی ترجمان فواد چودھری نے ہیلی کاپٹر کے سفر کو سستا قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ہیلی کاپٹر کا سفر 55 روپے فی کلومیٹر ہوتا ہے اس لیے یہ گاڑی کے سفر سے سستا ہے۔

30 اگست کو تحریک انصاف کی حکومت کو ایک بار پھر نئے سکینڈل کا سامنا کرنا پڑا جب صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کی جانب سے لائیو پروگرام کے وقفے کے دوران نجی ٹی وی چینل کے عملے کے لیے بیہودہ الفاظ استعمال کرنے کی ویڈیو جاری ہو گئی۔

اسی دوران فیاض الحسن چوہان کی جانب سے ایک اداکارہ کے لیے غیر مناسب الفاظ استعمال کرنے پر بھی صوبائی ترجمان اور ان کی حکومت کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد چوہان صاحب نے ان اداکارہ سے معافی طلب کی اور انہیں بہن قرار دیا۔

اسی طرح یکم ستمبر کو تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سندھ اسمبلی کے رکن عمران علی شاہ کی جانب سے سر راہ ایک عمر رسیدہ شخص کو تشدد کا نشانہ بنانے پر سپریم کورٹ نے نوٹس لے لیا تھا۔

اس واقعہ کی ویڈیو ریلیز ہونے کے بعد میں میڈیا میں ایک بار پھر تحریک انصاف کے رہنماﺅں کو آڑے ہاتھوں لیا گیا تھا۔ عدالت کی جانب سے عمران علی شاہ کو تیس لاکھ روپے چیف جسٹس ڈیم فنڈ میں جمع کرانے، متاثرہ شخص سے معافی مانگنے، پانچ لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے اور ایدھی سینٹر میں بیس مریضوں کے اخراجات برداشت کرنے کا حکم سنایا گیا تھا۔

پنجاب میں اس حوالے سے خصوصی طور پر مختلف واقعات دیکھنے کو ملے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی جانب سے کچھ ایسے فیصلے اور اقدامات سامنے آئے جس کی وجہ سے تحریک انصاف کی حکومت کو تضحیک و تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

29 اگست 2018ء کو وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے اپنے سسرال کے گاﺅں 3 ایٹ آر جانے سے پہلے سرکاری ہسپتال کا وزٹ کیا تا کہ بتایا جا سکے کہ وہ سرکاری دورے پر ہیں۔

ہیلی کاپٹر میں سسرال جانے کی نئی مثال قائم ہونے پر انھیں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ہیلی پیڈ سے گھر کی جانب جاتے ہوئے انھوں نے 30 گاڑیوں کا پروٹوکول استعمال کیا۔

مسلسل سیاسی مداخلت کے باعث آئے روز نئے معاملات منظر عام پر آتے رہے۔ چیف سیکریٹری اکبر حسین درانی کو تبدیل کر کے سپیکر پنجاب اسمبلی کے مبینہ طور پر قریبی دوست یوسف نسیم کو تعینات کر دیا گیا۔

ڈپٹی کمشنر جہلم کو تعیناتی کے صرف 13 روز بعد ہی ہٹا دیا گیا۔ اسی طرح مبینہ طور پر خاتون اول کی قریبی دوست فرح جمیل نے ڈپٹی کمشنر کو ہٹانے میں اپنا اثر رسوخ استعمال کیا۔

حکومتی وزرا اور رہنماﺅں کے غیر ذمہ دارانہ رویے اور نجی معاملات تحریک انصاف کے لیے تضحیک کا باعث بنے رہے جس کی وجہ سے ہر حلقے میں تحریک انصاف کی مقبولیت کو دھچکا لگا ہے۔

 

Advertisement