نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت منظور، تحریری فیصلہ جاری

Last Updated On 26 March,2019 06:55 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے نواز شریف کی طبی بنیادوں پر 6 ہفتے کے لئے ضمانت منظور کرلی۔ عدالت نے 50 لاکھ کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

 چیف جسٹس آصف سعید کهوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا نواز شریف ملک نہیں چھوڑ سکے، وہ 6 ہفتے میں اپنی مرضی کا علاج کراسکیں گے، نواز شریف 6 ہفتے بعد سرنڈر کریں گے، سرنڈر نہ کرنے پر گرفتاری عمل میں لائی جائے گی۔

سماعت شروع ہوئی تو وکیل خواجہ حارث کی جانب سے نواز شریف کے غیر ملکی ڈاکٹر لارنس کے خط کی مصدقہ کاپی عدالت میں پیش کی گئی۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا یہ خط عدنان نامی شخص کے نام لکھا گیا ہے، ڈاکٹر لارنس کا یہ خط عدالت کے نام نہیں لکھا گیا، اس خط کی قانونی حیثیت کیا ہو گی ؟ اس کے مصدقہ ہونے کا ثبوت نہیں، یہ خط ایک پرائیویٹ شخص نے دوسرے پرائیویٹ شخص کو لکھا ہے، آپ نے میرٹ کی بنیاد پر دائر پٹیشن واپس لے لی تھی۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا نواز شریف کی صحت کا معاملہ بعد میں سامنے آیا، نواز شریف کی صحت کا جائزہ لینے کیلئے 5 میڈیکل بورڈ بنے، پانچوں میڈیکل بورڈز نے نواز شریف کو ہسپتال داخل کرانے کی سفارش کی، میڈیکل بورڈز نے سفارش کی کہ نواز شریف کو علاج کی ضرورت ہے، 30 جنوری کو پی آئی سی بورڈ نے بڑے میڈیکل بورڈ بنانے کی تجویز دی، میڈیکل بورڈ نے ایک سے زائد بیماریوں کے علاج کی سہولت والے ہسپتال میں داخلے کا کہا۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا پروفیسر زبیر نے نواز شریف کی اینجیو گرافی کو ماہر امراض گردہ کی کلیئرنس سے مشروط کیا، نواز شریف کی ذیابیطس اور ہائپرٹینشن کی مانیٹرنگ کی بھی ضرورت ہے، ان کی نئی رپورٹ اگرچہ متنازعہ ہوگئی ہے مگر گردوں کا مسئلہ بڑھ گیا ہے، نواز شریف کے گردوں کی بیماری تیسرے مرحلے پر ہے، اگلے مرحلے پر ڈائیلاسز اور اس سے اگلے مرحلے پر گردے فیل ہوسکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے استفسار کرتے ہوئے کہا ڈاکٹر لارنس کے خط کے علاوہ ہمارے سامنے کچھ نہیں، کیا ہم ایک خط پر انحصار کر لیں ؟ جس پر وکیل نے کہا یہ ڈاکٹر نواز شریف کا علاج کرتا رہا ہے، اس کا خط مصدقہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا، کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف کی طبعیت خراب ہو گئی ہے، نواز شریف کی بیماری کے ثبوت میں ایک خط پیش کیا جا رہا ہے، ہم جاننا چاہتے ہیں کہ مریض 15 سال سے بیمار ہے، آپکی بنیاد ہے کہ نواز شریف کی صحت اب خراب ہو رہی ہے، نواز شریف نے بیماری کے دوران بہت مصروف زندگی گزاری۔

نیب کے وکیل جہانزیب بھروانہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا نواز شریف کی اپیل حتمی دلائل کے لئے مقرر ہو چکی ہے، نیب نواز شریف کی سزا میں اضافے کی درخواست دے چکا، نواز شریف کی 24 گھنٹے مانیٹرنگ کی جا رہی ہے، نواز شریف کی زندگی کو خطرہ نہیں، نواز شریف کی انجیو گرافی پاکستان میں ہوسکتی ہے، ہسپتالوں میں جدید ترین سہولتیں موجود ہیں۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا نیب کے سارے ملزم بیمار کیوں ہو جاتے ہیں ؟ نیب اتنے ارب روپے ریکور کرتا ہے ایک اچھا ہسپتال ہی بنا لے۔

 چیف جسٹس نے اسد منیر کی مبینہ خودکشی سے متعلق ریمارکس دیتے ہوئے کہا لگتا ہے نیب ملزمان کو ذہنی دباؤ زیادہ دیتا ہے، نیب رویے کی وجہ سے لوگ خودکشی کرنے لگ گئے ہیں، ہم اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔ عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔

یاد رہے اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت مسترد کی۔ عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا نواز شریف طبی بنیادوں پر ضمانت کے مستحق نہیں، جمع کرائی گئی میڈیکل رپورٹ میں نواز شریف کی جان کو خطرات لاحق نہیں تھے، یہ کیس غیر معمولی حالات کا نہیں بنتا، نواز شریف کے معاملے میں مخصوص حالات ثابت نہیں ہوئے، سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں کے باعث ضمانت نہیں دی جاسکتی، نواز شریف کوعلاج معالجے کی سہولتیں دستیاب ہیں۔

واضح رہے 8 ستمبر 2017 کو نواز شریف اور ان کے بچوں کیخلاف العزیزیہ، فلیگ شپ، ایون فیلڈ ریفرنسز دائر ہوئے، 19 اکتوبر 2017 کو العزیزیہ اور 20 اکتوبر کو فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف پر فرد جرم عائد ہوئی۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو 10، مریم نواز کو 7، محمد صفدر کو ایک سال قید کی سزا ہوئی۔ ستمبر 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس میں تینوں کی سزاؤں کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے معطل کر دیا تھا۔ 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو 7 سال قید کی سزا ہوئی، عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کو بری کیا تھا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو طبی بنیادوں پر دی جانے والی ضمانت کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا گیا ہے جو 4 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے تحریر کیا ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ علاج کیلئے مختصر مدت کیلئے ضمانت کی استدعا مناسب ہے۔ نواز شریف دوران ضمانت پاکستان میں کہیں سے بھی علاج کروا سکتے ہیں۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ دوران ضمانت ہائیکورٹ سے اپیل خارج ہوئی تو نواز شریف کی گرفتاری کا فیصلہ عدالت عالیہ کریگی۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ چھ ہفتے بعدان کی ضمانت ازخود منسوخ ہو جائے گی۔ چھ ہفتے بعد نواز شریف نے خود کو قانون کے حوالے نہ کیا تو گرفتار کیا جائے۔ ضمانت میں توسیع کے ہمراہ سرنڈر کرنا قابل قبول نہیں ہوگا۔

ادھر سپریم کورٹ میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے ضمانی مچلکے جمع کرانے کے لیے تیار کر لیے گئے ہیں۔ یہ ضمانتی مچلکے ڈاکٹر طارق فضل چودھری نے تیار کروائے ہیں۔