ایک دوسرے کی مخالف جماعتیں سر جوڑنے پر مجبور؟

Last Updated On 20 May,2019 08:18 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے افطار ڈنر پر اپوزیشن کی لیڈر شپ کے اکٹھ کا کریڈٹ خود موجودہ حکومت کو جاتا ہے جس کی اب تک کی کارکردگی نے آپس میں شدید اختلافات رکھنے والی جماعتوں اور قیادتوں کو سر جوڑنے پر مجبور کیا۔ اپوزیشن جماعتوں کے ذمہ داران کے اس اجلاس میں کوئی بڑا بریک تھرو تو نہ ہو سکا البتہ اجلاس میں نیب کی کارروائیوں پر شدید تحفظات ظاہر کرتے ہوئے اس میں حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور مہنگائی، بے روزگاری کے رجحان پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے حکومت پر دباؤ بڑھانے کا فیصلہ ہوا لیکن دباؤ بڑھانے کیلئے کیا حکمت عملی اختیار کی جائے گی اس حوالے سے مشاورت کے سلسلہ کو جاری رکھنے پر اتفاق ہوا۔

کہا گیا کہ وقت آ گیا ہے کہ اپوزیشن کو مشترکہ نکات کے تعین کے ساتھ مشترکہ پلیٹ فارم سے متحرک ہونا چاہیے۔ مذکورہ مشاورت کی اہم بات اس اجلاس میں بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی اور مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کا شریک ہونا اور غیر رسمی اجلاس میں اکٹھے بیٹھنا تھا اور ان کے اکٹھے بیٹھنے کے عمل سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ اکٹھے بیٹھنے کے بعد وہ اکٹھے کھڑے بھی ہو سکتے ہیں اور اگر قومی اور عوامی ایشوز کو بنیاد بنا کر مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری میدان میں نکلتے ہیں تو یقیناً موجودہ حکومت کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ ایک منتخب حکومت قائم ہونے کے باوجود ملک شدید مسائل، مشکلات سے دو چار ہے۔ خصوصاً معاشی بحران کی سنگینی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا دی ہے لیکن حکومت عوام سے سلگتے مسائل اور معاشی بحران پر توجہ دینے کے بجائے اپوزیشن کو ٹارگٹ کرنے کے عمل پر عمل پیرا ہے، اس سے اپوزیشن کو کس حد تک نقصان پہنچا ان کی مقبولیت متاثر ہوئی اس پر تو دو آرا ہو سکتی ہیں لیکن اس امر پر دو آرا نہیں کہ حکومت کی اب تک کی کارکردگی نے ملک میں مایوسی، بے چینی اور قومی سطح پر بے یقینی کو جنم دیا ہے اور کوئی دن ایسا نہیں جا رہا جس میں عوام پر معاشی دباؤ میں اضافہ نہ ہوتا ہو۔

حالات و واقعات اور رجحانات یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ہر آنے والے دن میں یہ حکومت کی مقبولیت پر اثر انداز ہو رہے ہیں، اسے اب جارحانہ حکمت عملی کے بجائے دفاعی محاذ پر آنا پڑا ہے۔ دفاعی محاذ پر آنے کے باوجود وہ اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے کو تیار نہیں اور اگر یہی سلسلہ جاری رہتا ہے اور عوام کیلئے کوئی ریلیف کا بندوبست نہیں ہو پاتا تو پھر حکومت کیلئے مشکلات بڑھیں گی، ملک میں جاری جمہوری عمل کو بھی خدشات در پیش ہوں گے۔ اس امر میں شک نہیں کہ وزیراعظم عمران خان ملک میں موثر احتساب کے نعرے پر برسر اقتدار آئے تھے اور انہوں نے عوام کیلئے ریلیف کا عزم ظاہر کیا تھا لیکن لگتا یوں ہے کہ حکومت نے برسر اقتدار آنے کے بعد یہی سمجھا کہ ملک کا اصل مسئلہ احتساب ہے جبکہ دیگر سلگتے ایشوز سے صرف نظر برتا گیا اور حالات اس نہج پر پہنچے ہیں کہ نہ تو موثر احتساب کیلئے کوئی زیادہ پیشرفت ہو سکی بلکہ الٹا معاشی اور اقتصادی چیلنجز اور سنگین ہو گئے، معاشی ٹیم تبدیل کرنے کے باوجود معاشی صورتحال میں سنبھالا نظر نہیں آ رہا۔ ہو سکتا ہے کہ آگے جا کر بہتری ہو لیکن جب تک حکومت میں ذمہ داری کا احساس نہیں ہوگا اور وہ اپنے مینڈیٹ کے مطابق خود کو عوام کے حوالے سے جوابدہ نہیں بنا سکے گی صورتحال بہتر نہیں ہو گی۔