جج کی مبینہ ویڈیو کی تحقیقات: درخواستوں پر اٹارنی جنرل سے تجاویز طلب

Last Updated On 16 July,2019 08:27 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے جج ارشد ملک مبینہ ویڈیو سکینڈل کے معاملے پر اٹارنی جنرل سے تجاویز طلب کرتے ہوئے سماعت 23 جولائی تک ملتوی کر دی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا تینوں درخواست گزاروں کی تجاویز نوٹ کر لی ہیں، اٹارنی جنرل کلبھوشن کیس کیلئے ہیگ گئے ہیں، واپس آ کر اپنی تجاویز جمع کرا دیں گے۔

 چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جج ارشد ملک ویڈیو سکینڈل کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے کہا ممکن ہے ارشد ملک کا تبادلہ پنجاب کر دیا جائے، ہائیکورٹ کے ماتحت جانے پر جج کیخلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔ وکیل طارق اسد ایڈووکیٹ نے کہا جج ارشد ملک غلط کام کے مرتب ہوئے، جج ارشد ملک ملکی تاریخ کا اہم کیس دیکھ رہے تھے، جج ملزموں سے ملتا رہا، اگر کنڈیکٹ ایسا ہے تو فیصلوں کی کیا حیثیت ہوگی، سپریم کورٹ اس معاملے کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن قائم کرے، اگر کسی اور ادارے نے تحقیقاتی کمیشن بنایا تو وہ جانبدار ہوگا۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وکیل طارق اسد ایڈووکیٹ سے استفسار کیا سوال تو یہ ہے کہ اس کمیشن کی سربراہی کون کرے ؟ کیا آپ کو ایک ریٹائرڈ جج بھی قبول ہے؟ جس پر وکیل طارق اسد ایڈووکیٹ نے کہا دیکھنا ہوگا کہ ریٹائرڈ جج کون سا ہے ؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ویڈیو کی بطور ثبوت کیا حیثیت ہے ؟ کسی کی ویڈیو ریکارڈ کرنا جرم ہے، ہمیں جج کا کنڈکٹ بھی دیکھنا ہوگا، کمیشن بنانے کا اختیار تو حکومت کو بھی ہے، اس کیس کے بہت سے پہلو ہیں۔ چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ نے سب چیزیں ہم پر ڈال دی ہیں، جب ہم سب کچھ کرتے ہیں آپ کو تب بھی اعتراض ہوتا ہے۔

درخواست گزار کے وکیل منیر صادق نے دلائل دیتے ہوئے کہا جج کو بلیک میل نہیں کیا جانا چاہیے، عدالت غیر جانبدار انکوائری کمیشن قائم کرے، انکوائری کمیشن سچ کی تلاش کرے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا عدالت نے کچھ کرنا ہوگا تو خود کرے گی، مطالبے پر کچھ نہیں کریں گے، عدالتیں لوگوں کے کہنے پر کچھ نہیں کرتیں، سچ کی تلاشی بن نوع انسان کے آنے سے جاری ہے، وکیل درخواستگزار کی جانب سے سیاستدانوں کے ویڈیو سکینڈل کے حوالے سے آپ کی تجویز لکھ لی ہے ، مزید کوئی تجویز تو نہیں، غیر ذمہ دارانہ بیانات ہمارے معاشرے کا بہت بڑا المیہ ہے، سب جج، پٹواری، سیاستدان، بیوروکریٹ، پولیس افسران ایسے ہیں، ایسے بیانات سے لوگوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔ عدالت نے کیس کی سماعت 23 جولائی تک ملتوی کر دی۔

 

Advertisement