خارجہ پالیسی محاذ پر کڑا امتحان

Last Updated On 06 August,2019 09:16 am

لاہور: (امتیاز گل) بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی ہم خیال جماعتیں کم و بیش ربع صدی سے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے لیے کوشاں رہی ہیں۔ یہ آرٹیکل مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق تھا۔ بھارت میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں 1994 میں قرارداد کی شکل میں یہ مشترکہ مطالبہ کرنے میں کامیاب ہوئی تھیں کہ پاکستان کو آزاد کشمیر کا کنٹرول بھی ختم کر دینا چاہئے۔ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر کے انتہا پسند ہندوؤں پر مشتمل بھارتی حکومت نے ایک نئی لکیر کھینچ دی ہے۔ اس کے نتیجے میں کشمیریوں کی ناراضی کا گراف مزید بلند ہوگا اور ان کی طرف سے مزاحمت مزید بڑھے گی۔

اپریل 2005 میں پاکستان کے صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے نئی دہلی کا دورہ کیا تھا جس کے دوران انہوں نے کشمیری قیادت سے بھی ملاقات کی تھی۔ تب سے اب تک مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے ناخوش گوار واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ جموں و کشمیر کو بھارت سے نتھی کرنے کا عمل اس معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے جو 1947 میں جموں و کشمیر کے حکمران ہری سنگھ نے بھارتی حکومت سے کیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت بھارتی حکومت کو کشمیر کی زمین، کشمیروں کی جان، عزت اور املاک کی حفاظت یقینی بنانا تھی۔ اس کے بعد اقوام متحدہ نے چند شرائط کے تحت بھارت کو جموں و کشمیر میں تعینات کیے جانے والے فوجیوں کی تعداد، طرز عمل اور مقامات کے حوالے محدود کر دیا۔ اس معاہدے کے تحت تعینات کی جانے والی فورسز کشمیری حکومت کے تابع تھیں مگر کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دیئے جانے سے تمام سابق معاہدے، قواعد اور میکنزم غیر موثر ہوکر رہ گئے ہیں۔

بھارت کہتا ہے کہ اب کشمیر بھارتی سرزمین کا اٹوٹ انگ ہے۔ یہ معاملہ ایک مدت سے طے کیا جانا تھا مگر کسی کو یقین نہیں تھا کہ یہ سب کچھ اس قدر جلد ہو جائے گا۔ ابتدائی خوف یا خدشہ یہ تھا کہ بھارتی حکومت آئین کے آرٹیکل 35A کو ختم کرنا چاہتی ہے جس کے تحت کوئی بھی غیر کشمیری (بھارتی) جموں و کشمیر میں املاک نہیں خرید سکتا، بھارت نے آرٹیکل 370 ہی کو مکمل طور پر ختم کر کے مستقبل کے حوالے سے لکیر کھینچ دی ہے اور یہ لکیر پاکستان سے مذاکرات کے حوالے سے بھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب جب بھی پاکستان سے مذاکرات بحال ہوں گے تب بھارتی حکومت جموں و کشمیر کے حوالے سے بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے یہ کہہ سکے گی کہ وہ اس کا حصہ ہے۔ اور یہ کہ پاکستان، سلامتی کونسل کی قرارداد کی روشنی میں، جموں و کشمیر کے اس حصے کو چھوڑنے کا پابند ہے جو اس وقت اس کے تصرف میں ہے۔ اب اس بات کا خطرہ بھی موجود ہے کہ بھارت آزاد کشمیر کے علاقے کو بھی اپنے میں جوڑنے کا اعلان کرے اور پاکستان سے کہے کہ وہاں اپنا کنٹرول ختم کرے۔

اگر بھارت کسی حد تک ثالث کے تحت مذاکرات پر آمادہ ہو بھی جائے تو ہوسکتا ہے کہ وہ یہ شرط عائد کرے کہ پہلے پاکستان آزاد کشمیر پر سے اپنا انتظامی تصرف مکمل طور پر ختم کرے۔ ایسا کوئی بھی قدم پاکستان اور بھارت کے ساتھ ساتھ چند دوسرے ممالک کے لیے بھی انتہائی خطرناک صورت حال پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔ اس وقت پاکستان کو انتظار کرتے ہوئے یہ دیکھنا پڑے گا کہ چین کس طرف جھکتا ہے اور سلامتی کونسل کے دیگر مستقل ارکان کیا موقف اختیار کرتے ہیں۔ پاکستان کے لیے اس وقت بہترین آپشن یہ ہے کہ بیجنگ کی طرف منہ موڑے۔ پاکستان کو تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال پر چینی قیادت سے مشاورت کرنی چاہئے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ چینی قیادت کوئی بھی فیصلہ طویل المیعاد بنیاد پر کرتی ہے اور دوسرے یہ کہ پاکستان کے پاس آپشنز کم ہیں کیونکہ وہ سنگین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ روس بھی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے اور پاکستان کی تھوڑی بہت رہنمائی ضرور کرسکتا ہے۔

خیر، چین سے کی جانے والی مشاورت ہی پاکستان کو بھارتی انتہا پسند قیادت کے پیدا کردہ بحران کا ڈٹ کر سامنا کرنے کے قابل بناسکتی ہے۔ پاکستان کو اس مسئلے پر برطانیہ سے بھی رابطہ کرنا چاہیے۔ اس وقت برطانیہ کو بریگزٹ اور دیگر معاملات کے حوالے سے الجھنوں کا سامنا ہے مگر ہمیں یہ نکتہ نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد برطانیہ میں مقیم ہے جو کسی طور نہیں چاہے گی کہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ ہو۔ برطانیہ میں مقیم کشمیریوں کو بھارتی عزائم اور اقدامات کے خلاف برطانوی پارلیمنٹ میں آواز بلند کرنے کیلئے متحرک کیا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ کشمیر کاز کے لیے یورپ کے دیگر کلیدی ممالک میں بھی تحرک پیدا کیا جاسکتا ہے۔ لندن میں سکونت پذیر کشمیری قانون دان ڈاکٹر نذیر گیلانی کا کہنا ہے کہ جو کچھ اب ہوا ہے وہ کبھی نہ ہوا ہوتا اگر نیشنل کانفرنس کے لیڈر شیخ محمد عبداللہ نے 5 فروری 1948 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارتی فورسز کے لیے مکمل مثبت رویے کا اظہار نہ کیا ہوتا۔

اسی طور پر اگر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر مفتی محمد سعید نے حکومت کی تشکیل کے لیے یکم مارچ 2015 کو بھارتیہ جنتا پارٹی سے اتحاد نہ کیا ہوتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ ڈاکٹر نذیر گیلانی کا کہنا ہے کہ نیشنل کانفرنس نے بھارتی فوج کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں قدم جمانے کا موقع فراہم کیا اور مفتی سعید کی پی ڈی پی نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو جموں و کشمیر کی حکومت میں حصہ دیا اور ایسا کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا۔ بھارتی سیاست دانوں نے کسی بھی طرح کی رکاوٹ محسوس کیے بغیر اپنے کارڈ کھیلے اور شیخ عبداللہ و مفتی سعید سے غداری کی۔ اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان دباؤ ڈال کر بھارت کو کشمیر سے متعلق اس تازہ اقدام کو واپس لینے پر مجبور کرسکیں گے۔ مستقل ارکان، چین کے سوا، بھارت کو کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی تعمیل کے حوالے سے کچھ کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کریں گے ؟ یا ان کے معاشی مفادات تمام بین الاقوامی قوانین اور انسان نواز کنونشنز (معاہدوں) کو بالائے طاق رکھنے میں کامیاب رہیں گے ؟ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا پاکستان نے بھی آزادکشمیر کو آئینی کور فراہم کرنے کا موقع گنوا دیا ہے ؟۔

یہ بات تو روز اول سے بالکل نمایاں تھی کہ پاکستان اور بھارت میں سے کوئی بھی جموں و کشمیر کے اپنے زیر تصرف علاقے سے ذرا بھی پیچھے ہٹنے پر تیار نہ ہوگا۔ اب پاکستان کی سفارت کارانہ صلاحیتوں کا بھی امتحان ہے ۔ کشمیر پر پاکستان اب تک اقوام متحدہ اور دیگر پلیٹ فارمز پر اب تک غیر موثر رہا ہے۔ مثلاً پاکستان کا فارن آفس یہ معلوم نہ کرسکا جون 2019 میں اقدام متحدہ کے ایک ڈرافٹ میں 8 مقامات پر (پیرا گراف 4، 6، 9، 18، 46، 52، 70 اور 132 میں) مقبوضہ جموں و کشمیر کو ‘‘بھارتی ریاست جموں و کشمیر’’ بتایا گیا ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ پاکستان نے اس حوالے سے باضابطہ سرکاری سطح پر کوئی اعتراض کیا یا نہیں کیونکہ یہ ڈرافٹ 12 جون کو اسلام آباد اور نئی دہلی کو بھیجا گیا تھا اور ان سے کہا گیا تھا کہ حقائق پر مبنی اپنی رائے 17 جون تک دیں۔ ہم سب یہ محسوس کرسکتے ہیں کہ ہمیں اب بہت دھماکا خیز حالات کا سامنا ہوسکتا ہے، داخلی سطح پر جو کچھ ہونا ہے وہ تو ہونا ہی ہے، اب پاکستان کو خارجہ پالیسی کے حوالے سے بھی غیر معمولی امتحان کا سامنا ہے۔